پاکستان میں ہر طرف کرپشن کا تعفن؛ باری کراچی بلیو لائن کی آگئی


پاکستان میں ہر طرف کرپشن کا تعفن؛ باری کراچی بلیو لائن کی آگئی

قومی احتساب بیورو نے اپنی تحقیقات کا رخ سندھ کیجانب کرتے ہوئے میگا ٹرانسپورٹ منصوبے "بلیو لائن پراجیکٹ" کے ٹھیکوں میں وسیع پیمانے پر کرپشن کے خلاف شکایت پر تحقیقات کا فیصلہ کرلیا ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق بلیو لائن منصوبے میں کرپشن کےخلاف نیب نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق قومی احتساب بیورو (نیب) نے کراچی میں میگا ٹرانسپورٹ منصوبہ بلیو لائن پراجیکٹ (بی ایل پی) کے ٹھیکوں میں وسیع پیمانے پر بے قاعدگیوں کے خلاف شکایت پر انکوائری کا فیصلہ کرلیا۔

نیب کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل (ٹی آئی) کی جانب سے نشاندہی پر تصدیق کا عمل شروع ہو چکا ہے۔

واضح رہے کہ ٹی آئی نے الزام عائد کیا کہ بلیو لائن منصوبے سے متعلق ٹھیکوں میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی گئی۔

ٹی آئی نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور ڈائریکٹر جنرل نیب کراچی کو 4 مئی کو سندھ حکومت کے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) یونٹ کو بلیو لائن منصوبہ میں کرپشن سے متعلق مراسلہ ارسال کیا۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ لاہور میں ‘صاف پانی منصوبہ’ پر کام کرنے والی متنازع کمپنی بھی کراچی کے بلیو لائن منصوبہ میں مبینہ طور پر ملوث ہے۔

خیال رہے کہ بی ایل پی 10 کلومیٹر طویل روڈ 16 ارب روپے کا منصوبہ ہے جس پر چلنے والی بسیں سہراب گوٹھ، واٹر پمپ، عائشہ منزل، کریم آباد سے ہوتے ہوئے گرومندر پہنچیں گی جہاں سے گرین لائن منصوبہ شروع ہوتا ہے۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ ٹھیکیداری عمل میں دو بڑی کمپنیوں نے انجینئر نگ ایسو سی ایٹ (ای اے)، ایس ایم سی اسد کنسٹرکشن (جے ویو) اور مقبول ایسوسی ایٹ، کال سنز انٹرپرائز (جے وی) نے مشترکہ کام کیا۔

ڈان کو دستیاب ٹی آئی کا مراسلے میں کہا گیا کہ ای اے کنسلٹنگ ٹھیکیدار کمپنی نہیں بلکہ محض کنسلٹنٹ فرم ہے۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ سندھ ہائی کورٹ (ایس ایچ سی) کے چیف جسٹس کو بھی مراسلہ ارسال کیا جا چکا ہے۔

مراسلے میں کہا گیا کہ ‘وزیراعلیٰ اور حکومت سندھ ٹینڈر کو منسوخ کریں جو سندھ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹر اتھارٹی (ایس پی پی آراے) کے قوائد کے منافی ہیں’۔

نیب کے سینئر حکام نے ڈان کو بتایا کہ سندھ ماس ٹرانسپورٹ اتھارٹی (ایس ایم ٹی اے) نے بی ایل پی سے متعلق پلان بھی جمع کرایا ہے، قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے تحت کوئی بھی منصوبہ جو 5 کروڑ سے زائد ہو گا اسے نیب میں پیش کیا جا سکے گا۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری