مغربی ممالک افغانستان سے آثار قدیمہ کی لوٹ مار میں مصروف


بامیان یونیورسٹی میں شعبہ آثار قدیمہ کے سربراہ کا کہنا ہےکہ مغربی ممالک خاص کر برطانیہ افغانستان سے آثار قدیمہ دیگر ممالک اسمگل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

 تسنیم خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، بامیان یونیورسٹی میں شعبہ آثار قدیمہ کے سربراہ "لائق احمدی" کا کہنا ہےکہ مغربی ممالک خاص کر برطانیہ افغانستان سے آثار قدیمہ دیگر ممالک اسمگل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان سے چرائے گئے مختلف قسم کے آثار قدیمہ یورپ کی نمائشگاہوں میں دیکھے گئے ہیں یہاں تک کہ بدھا کے بڑے بڑے مجسوں کو برطانیہ منتقل کیا گیا ہے۔

پروفیسر «محمدیاسر شهروند» کا کہنا ہے کہ کابل حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے ملک بھر میں آثار قدیمہ مکمل خاتمے کے قریب ہیں اور مغربی ممالک افغانستان سے آثار قدیمہ کی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔

واضح رہے کہ بامیان افغانستان کے چونتیس صوبوں میں سے ایک ہے جس کو ولایت بامیان کہا جاتا ہے، یہ افغانستان کے عین وسط میں واقع صوبہ ہے اور اس کے مرکزی شہر کو بھی بامیان ہی کہا جاتا ہے۔

یہاں آباد قبائل میں اکثریت ہزارہ کی ہے جبکہ پشتون اور تاجک یہاں کی اقلیتوں میں شمار ہوتے ہیں۔ بامیان افغانستان کے ہزارہ علاقہ جات میں سب سے بڑا صوبہ ہے اور  یہاں کی تہذیب اور تمدن پر ہزارہ قبائل کے رسم و رواج اور طرز معاشرت کی چھاپ واضح نظر آتی ہے۔

زمانہ قدیم میں وسطی افغانستان کے اس علاقے کو نہایت اہمیت حاصل تھی، تجارتی قافلے جو جنوبی ایشیاء، چین، وسطی ایشیاء اور یونان کی جانب قدیم شاہراہ ریشم سے سفر کرتے تو یہیں پڑاؤ ڈالتے جس کی وجہ سے یہاں تجارت اور سیاحت نے خوب ترقی کی اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کی تہذیب و تمدن نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔