کشمیر ہماری ترجیح نہیں رہا اب ۔ ۔ ۔


کشمیر ہماری ترجیح نہیں رہا اب ۔ ۔ ۔

کشمیر اب ہماری ترجیح نہیں رہا لیکن کشمیریوں کی اول و آخر ترجیح پاکستان ہی ہے۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: ان کے پیدا ہونے والے بچے سےلیکر جاتی عمر کے بزرگوں تک سب پاکستان کے نام پر جیتے ہیں اور پاکستان کے نام پر مرتے ہیں۔

ایک وقت تھا جب کشمیر ہمارے سلیبس سے لیکر اطلاعات و نشریات کے ایجنڈے میں سب سے اوپر ہوتا تھا۔

ہماری سیاست و سفارت میں جزو لاینفک ہوتا تھا لیکن اب ہم برائے نام بھی کشمیر کو جگہ دینے کے لیئے تیار نہیں۔

کشمیر حالانکہ انسانی و اخلاقی بنیادوں پر اجاگر کیئے جانے والا مسئلہ تھا لیکن اب یہ مذہبی حلقوں کی ذمہ داری بنادیا گیا یا سمجھ لیا گیا ہے۔

روزانہ کشمیر میں کشمیری عوام کی دگرگوں ہوتی حالت کاجتنا بھارت اور عالمی برادری ذمہ دار ہے اس سے کئی گنا زیادہ ہم پاکستانی اس کے ذمہ دار ہیں۔

ہمارا نوجوان بہت پرجوش اور ٹیلنٹڈ ہے لیکن ہم نے اس کی سمت بدل دی ہے۔

ورنہ ایک دور میں جب ہمارا بچپن اوائل عمر میں تھا ہم سلیبس کی کتابوں میں پڑھتے تھے کہ کشمیر کیا ہے اور اس کی تاریخی اور موجودہ حیثیت ہمارے لیئے کیا ہے؟

انگار وادی جیسے قومی ٹیلی ویژن پر نشر ہوئے ڈراموں نے ہمارے اس پڑھے ہوئے کی منظر کشی کی تو وادی میں موجود ہر بھارتی سورما ہمیں کالی داس اور نولکھا لگنے لگا جو حریت و آزادی کی جنگ لڑتے نوجوان کشمیریوں کے جسم پر ڈرل مشین سے ایذا دیتے ہیں۔

کتب بینی اور مطالعہ ترک ہوا تو اے حمید اور طارق اسمعیل ساگر کی وساطت سے کشمیر کی صورتحال پر لکھے ناول بھی پرانی باتیں ہوگئیں اب۔

پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر کی بات کریں تو اس دن پورا پاکستان کشمیر بنا ہوتا تھا اور قومی ٹیلی ویژن پر دکھائی گئی منظر کشی سے دل دہلتے اور نصرت فتح علی خان کا نغمہ کانوں میں گونجنا شروع ہوجاتا کہ جانے کب ہونگے کم, اس دنیا کے غم۔ ۔ ۔

ہمارے بچپن کا کھیل بھی عجیب ہوتا, ایک فریق بھارتی فوجی بن جاتا اور دو چار بچوں کی ٹیم لیکر دوسرے فریق کا پیچھا کرتا جو مجاہدین یا پاک فوج کے کردار میں ہوتا اپنی ٹیم کے ساتھ۔

کھیل کا وہ لمحہ وہ منظر دلکش ہوتا جب بھارتی فوجی اور اسکی ٹیم مجاہدین کی ٹیم کے کسی بندے کو پکڑ لیتی اور پھر ڈائیلاگ ہوتے جس میں بھارتیوں کی کمزوری جھلکتی اور مجاہدین کا عزم نظر آتا, اور کبھی ایسا ہوتا کہ نعرہ تکبیر گونجتا اور مجاہدین کی ٹیم اپنا بندہ چھڑانے سر پر پہنچ جاتی۔

یہ کھیل میں بچپن میں بہت دفعہ کھیلا ہوں اور ایسے کھیلوں کی یادیں زیادہ تر فوجیوں کے بچوں سے ہی وابستہ ہیں کہ فوجی جب جب اپنے بچوں میں بیٹھتے ہیں فارغ اوقات میں تو اسلاف کی قربانیاں اور موجودہ حالت زار سے اپنے بچوں کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔

میں بچپن میں کشمیر کو کمشیر کہا کرتاتھا اور میرے والد محترم بہت دیر تک ہنسا کرتے اور نا صرف میری غلطی درست کرواتے بلکہ ساتھ ساتھ کشمیر کی تازہ صورتحال بھی بتاتے اور خواہش کا اظہار کرتے کہ کاش میں کشمیر میں جہاد کی سعادت حاصل کرسکوں اور کشمیر کی فتح کی جنگ میں شامل رہوں۔

ہمارے اساتذہ کشمیر کے ذکر پر آبدیدہ ہوتے اور ہمیں کافی دیر تک کشمیر میں غلامی کی چکی میں پستے مسلمانوں کی کم مائیگی اور مجبوری بتاتے۔

مسجد میں جانے پر مولوی صاحب کی نماز کے بعد دعامیں اس حصے پر زیادہ زور ہوتا جہاں کشمیر کا ذکر ہوتا اور کشمیریوں کی مدد کی دعا ہوتی۔

کشمیر کشمیر کشمیر ہر وقت عوام وخواص میں کشمیر کا نام ہوتا تھا اور یہ ایک امید کی کرن اور عزم کی نشانی تھی۔

لیکن آج ہماری زندگیوں کی روانی میں کشمیر کھونے لگا ہے, ہمارے نقشوں, نصاب, اخبارات, رسائل, اسکول, کالج, یونیورسٹی, ٹیلی ویژن, ریڈیو, کھیل کود غرض ہر جگہ سے کشمیر نکلتا جارہا ہے اور یہی حالات رہے تو بہت جلد کشمیر ہمارے ہاتھ سے بھی نکل جانا ہے۔

ہمارے والدین اور اساتذہ بھی اب کشمیر کا نام نہیں لیتے اور حکمران و سیاستدان طبقہ تو ویسے ہی سودا کرچکا ہے کشمیر ہی کیا پاکستان کا بھی۔

یہ اب ماننا پڑے گا کہ کشمیر اب ہماری ترجیح نہیں رہا اور یہ مسئلہ حل کروانے میں ہم بخیلی کا شکار ہوچکے ہیں۔

کشمیر کو آزادی پہلے بھی نہیں ملی جب وہ ہماری ترجیح تھا لیکن کشمیری ہم سے ہیں اور ہم کشمیریوں سے اس کا احساس زندہ تھا۔

کشمیری آج بھی اس احساس سے زندہ ہیں اور اسی احساس پرمرمٹتے ہیں لیکن ہم مردہ دل ہوچکے ہیں اور اس احساس سے پرے ہیں۔

ہمیں یہ احساس یہ جذبہ دوبارہ زندہ کرنا ہوگا تاکہ کشمیر سے یکجہتی اور ہم آہنگی مصنوعی نہیں حقیقی لگے۔

کشمیر کو ترجیح دو کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔

تحریر: بلال شوکت

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری