رپورٹ | پھانسی دے دیں یا جیل بھیجیں ؟


رپورٹ | پھانسی دے دیں یا جیل بھیجیں ؟

ڈان اخبار کے تحقیقاتی رپورٹر اسد ملک کے سوال پر نوازشریف نے چیف جسٹس ثاقب نثار کا چار ہفتوں کےاندر فیصلہ سنانے سے متعلق فیصلہ دکھاتے ہوئے کہا کیا ایسی ہوتی ہے ڈیل؟

 12 جون کو خلاف معمول نوازشریف پانچ منٹ تاخیرسے عدالت پہنچے۔ جب گھڑی کی سوئیاں 9:30 پر پہنچیں تو نیب کے پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے عدالتی اہلکار کو کہا جا کر جج کو بتائیں کہ سماعت کا وقت ہوگیا ہے اب عدالتی کارروائی شروع ہونی چاہیے۔ عدالتی اہلکار حکم کی تعمیل کرتے ہوئے عدالت کے عقبی کونے سے جج محمد بشیر کے چیمبر میں چلے گئے اور پھر اپنے ساتھ جج کو بھی عدالت میں لے کر آگئے۔

مظفر عباسی سے نے جج سے پوچھا کہ سپریم کورٹ کی کیا ہدایات ہیں۔ جج نے مشورہ دیا کہ رجسٹرار سے پتا کریں۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا اگر ہدایات ہفتے اور اتوار کو بھی سماعت جاری رکھنے کی ہیں اور دوسری طرف اس پر عملدرآمد نہ بھی کریں تو تو فیصلہ آپ ہی نے کرنا ہے۔

جج نے کہا یہ ہفتہ اتوار ضروری نہیں ہے، اگر عدالت ضرورت سمجھے تو ایسا کیا جاسکتا ہے۔ پراسیکیوٹر افضل قریشی نے تجویزدی کہ عدالت روزانہ ایک گھنٹے کا وقت بھی بڑھا سکتی ہے۔ سردار مظفر نے کہا آج مریم نواز کے وکیل امجد پرویزکو بحث کرنی چاہیے۔ ابھی یہ ہلکی پھلکی بحث وتکرار جاری تھی کہ نوازشریف مریم نواز کے ہمراہ خلاف معمول پانچ منٹ لیٹ 9 بجکر35 منٹ پرکمرہ عدالت میں داخل ہوئے۔

ایک عدالتی اہلکار نے ضابطے کی کارروائی مکمل کرنے کے لیے عدالت کے دروازے پر صدا بلند کی سرکار بنام میاں محمد نوازشریف وغیرہ۔ نوازشریف روسٹرم پرآئے تو مریم نوازان کے دائیں جانب کھڑی ہوگئیں۔ آج نوازشریف ایک وکیل کے روپ میں عدالت سے مخاطب تھے جبکہ مریم ایک قابل معاون وکیل بن گئیں۔ نواز شریف روسٹرم پر آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹی نوٹ بک تھی جس پر انہوں نے گہرے سبز رنگ کے قلم سے نوٹس لے رکھے تھے جو اس بات کا اظہار تھا کہ آج نوازشریف بطور وکیل خود تیاری کرکے آئے ہیں۔

مریم نواز اپنے والد کے کان میں اہم نکات کی طرف توجہ دلاتی نظر آئیں۔ نوازشریف نے جج کو بتایا کہ یہ اتنا آسان فیصلہ نہیں ہے، ایک وکیل جس نے 9 ماہ محنت سے کیس کیا ہواورپھر اسے وکالت نامہ واپس لینے پر مجبور کردیا جائے تو یہ موکل کو بنیادی حقوق سے محروم کردینے کے مترادف ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثارکے رویے پربات کرتےہوئے نوازشریف نے کہا کہ کڑی شرائط عائد کرکے میرے وکیل کویہ کیس چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ نوازشریف نے سوال کیا کہ ہم نے تاخیر کی ہی کب ہے؟ اس مقدمے کے لیے ہرروزسحری کرکے لاہورسے اسلام آباد پہنچ جاتے ہیں۔ نوازشریف نے ایک منجھے ہوئے وکیل کی طرح جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایک سو کے قریپ ہماری پیشیاں ہوچکی ہیں۔ پھربولے7/24 کی بنیاد پرپاکستان میں آج تک کوئی کیس نہیں چلا گیا ، اگر ایسا ہواہے تو اس کی مثال سامنے لائیں۔

جج محمد بشیر نے نوازشریف سےاپنا کنڈکٹ مودبانہ رکھا اوران کی مشکل کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے۔ نواشریف کی گفتگو کے درمیان ایک موقع پر جج نے نیب کے پراسیکیوٹر سردارمظفر کو اس لیے جھاڑ پلادی کہ وہ نوازشریف کی گفتگو میں مداخلت کررہے تھے،جج نے کہا کہ خوامخواہ عدالتی کارروائی میں مداخلت نہ کریں۔ مریم نوازکے وکیل نے سفارش کی کہ نوازشریف کو وکیل کرنے سے متعلق وقت ملناچاہیے، وہ خواجہ حارث کو راضی کرلیں یا اپنی مرضی کا کوئی نیا وکیل کرلیں مگر ہماراکنڈکٹ آپ کے سامنے ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ آخری مرحلے سے خواجہ حارث کا وکالت نامہ واپس لینا مناسب نہیں، دفاع اوراستغاثہ کا کام عدالت کی معاونت کرنا ہوتا ہے۔ نوازشریف نے فوراًکہا یہاں صورتحال مختلف ہے۔ نوازشریف نے کہا خواجہ حارث نے سپریم کورٹ میں ہی withdrawal کا کہہ دیا تھا۔ عدالت نے ان کی withdrawal کے بعد ایسا رویہ اختیار نہیں کیا کہ وہ ایسا نہیں چاہتے۔

نوازشریف نے جج سے پوچھا اگرسپریم کورٹ نے چار ہفتوں کا وقت دے کر معاملہ عدالت پرچھوڑا ہوا ہے تو پھر ان کو چار ہفتوں کا بھی نہیں کہنا چاہیے تھا۔ اس موقع پرمریم نواز نے بھی نوازشریف کے کان میں کوئی مشورہ دیا۔اسی دوران جج نے نوازشریف کوسپریم کورٹ کا حکم پڑھنے کے لیے دیا۔ نوازشریف نے کہا اس کے انتظار کی کیا ضرورت ہے؟ چیف جسٹس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جب خواجہ حارث نے بتایا کہ خودفیصلہ کرلیں، جیل بھیج دیں تو انہوں نے خواجہ حارث کو کہا ہے کہ آپ ہمیں threat کررہے ہیں۔ نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے کہا بہت سی چیزیں ریمارکس میں ہوتی ہیں فیصلوں میں نہیں۔ نوازشریف نے کہا یہ 2018 کے الیکشن کو متاثر کرنے کی اسکیم ہے، اگر ایسا ہے تو سپریم کورٹ اس کیس کو اپنے پاس واپس بلا لے اورفیصلہ کرلے۔ کمرہ عدالت میں مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے وکلاء نے جج کو بتایا کہ ان عدالتوں میں 17 برس سے مقدمات چل رہے ہیں، اس مقدمے میں اتنی جلدی کیوں کی جارہی ہے۔ جج نے وکلاء کی طرف غور سے دیکھ کر سماعت جاری رکھی۔ نوازشریف نے عدالت کو بتایا کہ یہ کیس اپنی نوعیت کا واحد کیس ہے جہاں سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا اور پھر وہی مانیٹرنگ جج بھی بنے ہوئے ہیں ،اب اپیل بھی ان کے پاس جائے گی۔ پاکستان میں اس سے پہلے ایسا کوئی کیس موجود نہیں ہے۔ ہمارا یہ واحد کیس ہے جو اتنی سپیڈ سے چل رہا ہے۔ جج محمد بشیر نے کہا کہ عدالتوں مانیٹرنگ جج ہوتے ہیں اور مدت کا تعین بھی کیا جاتا ہے۔ پھر مودبانہ طور پر نوازشریف سے پوچھا اگر یہ کیس جلدی ختم ہوجائے تو اچھا نہیں ہے۔

نوازشریف نے کہا اچھا ہے یہ کیس چلے ہماری جان چھوٹے۔ ایک دفعہ پھر کہا میں خواجہ حارث کی بات سے متفق ہوں۔ سپریم کورٹ کو چاہیے اس کیس کو اپنے پاس واپس منگوالیں اور جو چاہیں فیصلہ کرلیں ،پھانسی پر لٹکانا ہے تو پھانسی پر لٹکا دیں، جیل بھیجنا ہے تو جیل بھیج دیں۔ سابق وزیر اعظم نے جج سے پوچھا کیا بیگم کی عیادت کے لیے جانے کی درخواست دینا تشہیر کے لیے ہے؟ کیا یہ دل دکھانے والی بات نہیں ہے؟ میں نے تو سپریم کورٹ کو کوئی درخواست نہیں دی کہ وہ مجھ پر رحم فرمائیں۔ جج نے نوازشریف کو خواجہ حارث سے فون پر رابطہ کرنے کا مشورہ دیا تونوازشریف نےکہا ایسی باتیں فون پر نہیں ہوسکتیں، ملاقات کرنی ہوگی۔ جج نے سماعت میں وقفے کا اعلان کرتے ہوئے نوازشریف کو کہا آپ خواجہ حارث سے مل کر آجائیں مگر نوازشریف وقفے کے دوران بھی کمرہ عدالت میں موجود رہے۔

وقفے کے دوران نوازشریف سے بات چیت کا موقع ملا تو نوازشریف نے اپنے ساتھ روا رکھے جانے والےسلوک، چیف جسٹس کی طرف سے پرویز مشرف کے لیے نرم برتاؤ، الیکشن میں قبل ازوقت دھاندلی اور ڈیل سے متعلق تفصیلاً اظہار خیال کیا۔ نوازشریف نے اپنی سیکورٹی سے متعلق بھی بتایا اور خدشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس ثاقب نثار کے حکم پر میری سیکورٹی کم کردی گئی ہے اور مجھے اس حوالے سے خطرات کی بو آرہی ہے۔

ڈان اخبار کے تحقیقاتی رپورٹر اسد ملک کے سوال پر نوازشریف نے چیف جسٹس ثاقب نثار کا چار ہفتوں کےاندر فیصلہ سنانے سے متعلق فیصلہ دکھاتے ہوئے کہا کیا ایسی ہوتی ہے ڈیل؟ الیکشن کی تیاری سے متعلق مسکراتے ہوئے بولے کہ یہی تیاریاں ہیں جو یہاں ہورہی ہیں۔ سینیٹر پرویز رشید نے نوازشریف کے ہاتھ سے سپریم کورٹ کا حکم لیا اور پھر صحافیوں کو دکھاتے ہوئے کہا یہ گذشتہ دن 11:30 بجے احتساب عدالت کے رجسٹرار کو فیکس پر موصول ہوگیا تھا اور ہمیں یہاں بتایا جارہا ہے کہ ابھی انتظار کرتے ہیں تاکہ وہ تحریری حکمنامہ مل جائے۔

مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ خواجہ حارث نے ذاتی وجوہات کی بنیاد پر مقدمات سے علیحدگی اختیار نہیں کی ہے انہوں نے وجوہات لکھ دی ہیں۔ سماعت کے اختتام پر جج نے نوازشریف کو وقت دینے سے متعلق اپنے فیصلے سے آگاہ کیا مگر جج کی آواز نوازشریف تک نہ پہنچ سکی تو امجد پرویز نے انہیں بتایا کہ آپ عید کے بعد 19 تاریخ تک وکیل کا بندوبست کرلیں۔ نوازشریف نے جج کا شکریہ ادا کیا اور کمر ہ عدالت سے باہر نکل گئے ۔ آج سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے طویل عرصہ بعد میڈیا کے سامنے آن کیمرہ بات چیت بھی کی۔

تحریر: اعظم خان

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری