رپورٹ | امریکہ کے بدلتے روپ/ طالبان کے حوالے سے پالیسی میں ردوبدل، شکست یا کنفیوژن؟


رپورٹ | امریکہ کے بدلتے روپ/ طالبان کے حوالے سے پالیسی میں ردوبدل، شکست یا کنفیوژن؟

ابھی مہینہ ہی نہیں گزرا ہے جب ٹرمپ حکومت نے افغان طالبان کیساتھ مذاکرات کو سرے سے مترد کرتے ہوئے اپنی فوجی کارروائیوں کو جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا لیکن اب امریکہ نے ایک بار پھر اس گروپ کیساتھ مذاکرات کیلئے آمادگی کا عندیہ دیا ہے، اپنے موقف سے ہٹنے کو واشنگٹن کی دوہری پالیسی کہیں یا طالبان کے ہاتھوں بدترین شکست کے سبب حکام کی کنفیوژن ؟

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق امریکا کے سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ اگر طالبان امن مذاکرات کا حصہ بنے تو ٹرمپ انتظامیہ طالبان کے ساتھ افغانستان میں امریکی اور بین الاقوامی فورسز کے کردار پر بات کر سکتی ہے۔

واضح رہے کہ افغان حکومت کی جانب سے رمضان المبارک کے آخری عشرے میں جنگ بندی کا فیصلہ سامنے آیا تھا جس کے بعد طالبان نے بھی آمادگی کا اظہار کیا تھا۔

عیدالفطر کے موقع پر طالبان اور افغان فوسرز کی بغل گیر ہونے کی تصویریں منظر عام پر آنے کے بعد افغان حکومت نے جنگ بندی میں مزید 10 دن کی توسیع کردی تھی۔

امریکا کے سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے کہا کہ ‘افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اپنے بیان میں افغان شہریوں اور امن مذاکرات کی ضرورت میں عالمی فورسز کے کردار پر زور دیا’۔

انہوں نے کہا کہ امریکا مذاکرات کی حمایت، شمولیت اور اس میں تعاون کے لیے تیار ہے۔

خیال رہے کہ طالبان کا ہمیشہ سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ افغانستان سے امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی فورسز کے انخلا کے بغیر امن مذاکرات کی گنجائش موجود نہیں ہے۔

واضح رہے کہ امریکی وزارت خارجہ کے مشیر نے عرصہ قبل طالبان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک طالبان کابل حکام سے مذاکرات نہیں کریں گے تب تک امریکہ سے براہ راست بات چیت کی توقع نہ رکھی جائے۔

دوسری طرف طالبان کا کہنا ہے  کہ کابل حکومت افغانستان کے عوام پر امریکہ نے مسلط کی ہے جس سے بات چیت کا مطلب امریکی قبضے کو تسلیم کرنا ہے۔

طالبان کا ماننا ہے کہ کابل حکومت غیر قانونی اور ناجائز ہے جو غیروں کے توسط سے افغان عوام پر مسلط کی گئی ہے لہذا مذاکرات بھی ان سے ہونے چاہیں۔

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری