پاکستان؛ واٹر پالیسی تشکیل نہ دینے کے سبب پانی بحران سنگین


پاکستان؛ واٹر پالیسی تشکیل نہ دینے کے سبب پانی بحران سنگین

وزارت پانی و بجلی کی سفارشات کے باوجود ملک میں اب تک کوئی قومی واٹر پالیسی تشکیل نہیں دی جا سکی، جس کے باعث ملک بھر میں پانی کا بحران سنگین ہونا شروع ہو گیا ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق فراہمی آب کے ابتر نظام کے لحاظ سے پاکستان صرف ایتھوپیا سے بہتر ممالک کی صف میں چلا گیا ہے۔ واٹر پالیسی کا مسودہ گزشتہ 13 سال سے تین حکومتوں کی وفاقی کابینہ کی توجہ حاصل نہیں کر سکا اور منظوری کا منتظر رہا، تاہم تین سال قبل اس مسودے میں بعض تبدیلیاں کر کے ایک بار پھر اسے اُس وقت کی وفاقی کابینہ کے سپرد کیا گیا، تاہم آخری منتخب کابینہ بھی اسے عمل درآمد کی سطح پر نہیں لا سکی۔ قومی واٹر پالیسی نہ ہونے کے باعث دارالحکومت اسلام آباد سمیت راولپنڈی، لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں کی آبادیوں کے بڑے حصے میں پینے کا پانی موجود نہیں ہے۔ لاہور ریلوے اسٹیشن پر گزشتہ ہفتے پانچ روز تک پینے کا پانی موجود نہیں تھا۔ عوام بورنگ کا پانی بھی حاصل کرنے سے قاصر ہیں کیوں کہ واٹر لیول خطرناک حد تک نیچے جا چکا ہے۔

تفصیلات کے مطابق انسانوں، جانوروں اور پودوں کی زندگی کی بنیادی ضرورت پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی مناسب نکاسی کے معاملے پر قومی سطح پر مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ باخبر ذرائع کے مطابق وزارت پانی و بجلی نے 13 سال قبل 2005 ء میں پانی کے بارے میں قومی پالیسی کا مسودہ تیار کر کے وفاقی کابینہ کو بھیجا تھا، تاہم کابینہ نے اس اہم اور بنیادی انسانی حقوق سے متعلق مسودے کو اہمیت نہیں دی، جس پر (ن) لیگ کی سابق حکومت میں اُس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے 2015 ء میں اس مسودے کو تازہ شکل دلوا کر کابینہ کے حوالے کیا تھا تاکہ ملک میں قومی سطح پر واٹر پالیسی پر عمل درآمد ممکن بنایا جا سکے لیکن بدقسمتی سے یہ کابینہ بھی اس نظر ثانی شدہ مسودے کو منظور کرنے سے قاصر رہی۔

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بھی اس اہم ایشو پر توجہ دلائی ہے۔ رپورٹ کے مطابق نظر ثانی شدہ مسودے میں 23 نکاتی پروگرام کو حتمی شکل دینے کی سفارش کی گئی تھی۔ ان نکات میں سیلابی پانی کو محفوظ کرنے، واٹر مینجمنٹ، زیر زمین پانی کو چارج کرنے، بے ہنگم بہنے والے پانی کو کٹائی کر کے محفوظ کرنے جیسے اقدامات کی سفارش کی گئی تھی۔

رپورٹ میں دس نکات پر مبنی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ اس اہم اور قومی مسئلے کو وفاق اور صوبائی حکومتیں اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے حل کریں اور جلد سے جلد قومی واٹر پالیسی کو حتمی شکل دے کر نافذ کریں۔ پینے کے صاف پانی کے نرخ گھریلو، تجارتی اور صنعتی بنیادوں پر منصفانہ بنائے جائیں۔ سی ڈی اے ماحول دوست پالیسی پر سختی سے عمل کرے، ہر سطح کے اسٹیک ہولڈرز کے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ گھروں کی چھتوں سے بہہ کر ضائع ہونے والے پانی کی اسٹوریج کا انتظام کیا جائے تاکہ اسے واش روم کی دھلائی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ نجی ٹیوب ویلز اور بورنگ کے نظام کو قانونی شکل دی جائے تاکہ زیر زمین پانی کی سطح کو مانیٹر کیا جا سکے۔

دنیا نیوز کے مطابق وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں پمپنگ اسٹیشنز کی موٹروں کی مرمت اور دیکھ بھال پر خصوصی توجہ رکھیں اور اس مد میں سالانہ بجٹ کی مقدار بڑھائی جائے۔ واپڈا سے منظور شدہ چنیوٹ ڈیم فوری بنایا جائے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئی واضح پالیسی نہ ہونے کے باعث پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لحاظ سے فی شخص پانی کی ضرورت پوری نہیں ہو رہی ہے ۔

1990 ء میں فی شخص دو ہزار 172 کیوبک فٹ پانی دستیاب تھا جو کم ہوتے ہوتے 2015 ء تک ایک ہزار 306 کیوبک فٹ رہ گیا ہے ۔ پاکستان کے دو کروڑ 72 لاکھ افراد کو پینے کا صاف پانی اور 5 کروڑ 27 لاکھ افراد کو معیاری سیوریج سسٹم کی سہولت میسر نہیں ہے ۔ فراہمی آب کے نظام کے لحاظ سے پاکستان صرف ایتھوپیا سے بہتر ممالک کی صف میں شامل ہے ۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے بھی صورت حال کو خطرناک اور اقدامات کو ناکافی قرار دے دیا ہے۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری