شہنشاہِ غزل، معروف پاکستانی گلوکار مہدی حسن کی 91ویں سالگرہ


شہنشاہِ غزل، معروف پاکستانی گلوکار مہدی حسن کی 91ویں سالگرہ

پاکستان کے معروف گلوکار مہدی حسن کی 91 ویں سالگرہ پر گوگل نے انہیں ڈوڈل کے ذریعے خراج تحسین بھی پیش کیا ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق مہدی حسن بلاشبہ شہنشاہِ غزل تھے، انہوں نے جدت، روایت اور نئے تجربات سے گائیکی کو ایک نیا اسلوب بخشا۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی لوگ اردو گائیکی سے واقف ہیں وہ مہدی حسن کے نام سے بھی آشنا ہیں۔

پیار بھرے دو شرمیلے نین جیسے ہزاروں لازوال گیتوں کو اپنی آواز دینے والے شہنشاہ غزل مہدی حسن اٹھارہ جولائی 1927 کو راجھستان میں پیدا ہوئے۔

انہوں نے 1935 میں آٹھ سال کی عمر میں گلوکاری کا آغاز کیا اور تقسیم ہند کے بعد پاکستان چلے آئے، جہاں 50 کی دہائی میں انہیں کراچی سے ریڈیو پاکستان میں اپنی فنکارانہ صلاحتیں دکھانے کا موقع ملا۔

فلموں میں انہیں 1962 میں ریلیز ہونے والی فلم فرنگی کی شہرہ آفاق غزل ’گلوں میں رنگ بھرے‘ سے شہرت ملی، اس ایک گیت نے مہدی حسن کو گلی گلی مشہورکردیا تھا، جس کے بعد انھوں نے کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔

مہدی حسن اور محمد علی کی جوڑی کا اشتراک بہت پسند کیا گیا اور کہا جاتا تھا کہ محمد علی کی مقبولیت میں مہدی حسن کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے، مگر محمد علی کے ساتھ ساتھ وحید مراد کے لئے بھی مہدی حسن کی آواز کو بہت پسند کیا گیا۔

اسی طرح رنگیلا، شاہد ، درپن اور اعجاز کے لئے گائے گئے گیت انہیں ہر چہرے کے لئے موزوں آواز ثابت کرتے ہیں۔

ان کا گیت 'اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا اتنا مشہور ہوا کہ یہ آج بھی مہدی حسن کے سب سے زیادہ مشہور گانوں میں سرفہرست ہے۔

اسی طرح ایک گیت زندگی میں تو سب ہی پیار کیا کرتے ہیں کو سن کر ہندوستانی گلوکار لتا منگھیشکر نے کہا تھا کہ مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتے ہیں۔

انھوں نے اپنی زندگی میں 25 ہزار سے زائد فلمی وغیر فلمی گیت اور غزلیں گائیں، ان کے حوالے سے یہ بات بھی نہایت مشہور تھی کہ جس نو فنکار پر ان کی آواز ڈب ہوتی ہے وہ راتوں رات کامیاب فنکاروں کی فہرست میں آکھڑا ہوتا تھا۔

جیسے فلم گھونگھٹ کے گیت مجھ کو آواز دے تو کہاں ہے کو سن کر لوگ سنتوش کمار کے دیوانے ہوگئے۔

ماضی کے مشہور ہیرو شاہد کی پہلی فلم آنسو میں مہدی حسن کے گیت 'جان جاں تو جو کہے گاﺅں میں گیت تیرے' نے شاہد کو پہلی فلم سے ہی صف اول کے ہیروز میں لا کھڑا کیا۔

انہیں حکومت کی جانب سے تمغہ امتیاز، ستارہ امتیاز اور تمغہ حسن کارکردگی جیسے اعزازات سے بھی نوازا گیا تھا، وہ پاکستان میں گائیکی کے شہنشاہ تھے اور آئندہ کئی عشروں تک بھی شاید ان جیسا گلوگار پیدا نہ ہوسکے گا۔

1999 میں سانس کی تکلیف کے باعث شہنشاہ غزل نے گانا ترک کر دیا تھا جس کے بعد وہ 12 برس تک علالت کا شکار رہے۔

شہنشاہ غزل طویل علالت کے بعد 13 جون 2012 کو کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں 84 سال کی عمر میں انتقال کرگئے تاہم ان کے مقبول ترین گیت اورغزلیں برسوں عظیم فنکار کی یاد دلاتے رہیں گے۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری