امام حسینؑ سے یزید فاسق نے ووٹ ہی تو مانگا تھا تو الیکشن میں حصہ لینا کیسے جائز نہیں؟


امام حسینؑ سے یزید فاسق نے ووٹ ہی تو مانگا تھا تو الیکشن میں حصہ لینا کیسے جائز نہیں؟

"جمہوریت کا نظام طاغوتی نظام ہے، الیکشن میں حصہ لینا جائز نہیں۔ یہ انکار ربوبیت یعنی شرک ہے۔ امام حسینؑ سے یزید فاسق نے ووٹ ہی تو مانگا تھا۔"

خبر رساں ادارہ تسنیم: پاکستان میں اس ہفتے الیکشن ہیں اور اس حوالے سے درج بالا مطالب کی شدت کیساتھ ایک طبقہ تشریح کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ نا ختم ہونیوالا بحث گزشتہ الیکشن میں بھی اسی طرح سے جاری رہا اور شاید بہت سارے لوگوں نے اس پر عمل کرتے ہوئے الیکشن میں ووٹ دینے کے عمل میں شریک نہیں ہوئے۔اور صاف ظاہر ہے اس بار بھی اس فکر سے متاثر افراد یقینا اس دیسی ساختہ مشرکانہ عمل  کوانجام دینے سے باز رہیں گے۔

ذیل میں مکتبہ تشیع کے سرتاج بزرگ مراجع عظام کے فتاویٰ پیش ہیں اس کے بعد قارئین خود ہی فیصلہ کر لیں کہ کیا واقعا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ووٹ دینا شرک ہے اور یزید کی بیعت کرنے کے مترادف ہے ؟ ہاں نظام سو فیصد درست ہرگز نہیں، اور سو فیصد درست ہونے کا دعویٰ ولی امر مسلمین کے زیر سایہ جمہوری اسلامی ایران بھی نہیں کرتا، یعنی بہتری کی ضرورت اور گنجائش موجودہے۔ جبکہ لبنان، شام، یمن، اور عراق  وغیرہ میں نہ مجلس خبرگان جیسی شوریٰ ہے نہ ہی ولی فقیہہ وہاں کی اسمبلی اور قوانین پر عملداری رکھتا ہے، لیکن وہاں کسی نے ابتک شرک اور یزید کی بیعت قرار  نہیں دیا، کم از کم میری نظر سے آج تک نہیں گزرا۔ عراق میں بزرگ مرجع عالیقدر سید سیستانی کا الیکشن میں مفصل فتویٰ موجود ہیں جس میں ضروریات اور ذمہداریوں کیساتھ جمہوری نظام کو ضروری قرار دیا گیا ہے، اور دیگر مراجع عظام میں سے بھی کسی ایک نے بھی جمہوری نظام میں حصہ لینے کو امامت سے انکار، ربوبیت سے انکار  یعنی شرک یا یزید کی بیعت قرار نہیں دیا، بلکہ مجموعی طور پر جمہوری نظام کے تحت ملکی معاملات میں اپنی ذمہداریوں کو نبھانے پر تاکید نظر آتی ہے۔  

1۔  رہبر معظم کے آفیشل ویب سائیٹ پر جدید استفتاء میں واضح سوال کا جواب یوں ہے۔

س 1: کیا کافر ملک کے قومی انتخابات میں ووٹ ڈالنا جائز ہے ؟ 

س 2: اگر جائز ہے تو کیا ایسے نمائندے کو ووٹ دیا جاسکتا ہے کہ جس کی بعض موضوعات( عراق سے انخلاء ۔۔۔) میں مسلمان حمایت کرتے ہیں نہ کسی دوسرے شخص کو ؟ 

ج 1، 2: قومی انتخابات میں شرکت کرنے اور ووٹ دینےمیں کوئی حرج نہیں ہے اور اس سلسلے میں مسلم اور غیر مسلم نمائندوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

2۔ عراقی پارلیمانی الیکشن سے متعلق دفتر آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی (دام ظلہ) کا بیان

بسم اللہ الرحمن الرحیم الیکشن کی تاریخ نزدیک آنے پر بڑی تعداد میں عراقی شہری مرجعیت کا موقف جاننا چاہتے ہیں. کیونکہ یہ ایک اہم سیاسی اقدام ہے اس لئے ضروری ہے کہ تیں امور کو یہاں بیان کیا جائے

1۔ انتخابات کا راستہ ہی حال اور مستقبل میں صحیح اور مناسب ترین راستہ ہے

ظالمانہ نظام کے سقوط سے ہی مرجعیت نے کوشش کی کہ اس فاسد نظان کی جگہ ایک متعدد اقطاب سیاسی نظام اسکی جگہ حاصل کر لے. اور انتخابی صنادیق اور ووٹنگ کے ذریعے پر امن سسٹم کو چلایا جائے اور شفاف انتخابات اپنے طے شدہ وقت پر ہوں. اور اس ایمان ویقین کے ساتھ کہ یہی وہ تنہا راستہ ہے کہ جس میں عوام کی حریت وآزادی ، عزت وکرامت اور ترقی وخوشحالی کی ضمانت ہے . اور اسی کے ذریعے ہی اعلی اقدار اور عالی مفادات کی حفاظت ہو سکتی ہے.اسی لئے تو دینی مرجعیت نے ناجائز قابض نظام اور اقوام متحدہ پر زور دیا تھا کہ جلد از جلد انتخابات کروا کر عراقیوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے. تاکہ وہ اپنے نمائندگان کو منتخب کر سکیں جن کے پاس مستقل دستور بنانے اور حکومت کرنے کے لئے نمائندگان اختیار کرنے کا اختیار ہو.آج 15 سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی مرجعیت اپنی رائے پر قائم ہےکہ بنیادی اور اصولی طور پر یہ اسلوب اور راستہ ،یعنی انتخابات کا راستہ ہی حال اور مستقبل میں صحیح اور مناسب راستہ ہےاور ضروری ہے کہ انفرادی اور استبدادی اقتدار کا راستہ روکا جائے خواہ اسکا جو بھی بہانہ اور عنوان وہ  تلاش کریںاور یہ بھی واضح رہے کہ انتخابی راستہ اس وقت تک مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتا جبتک اس میں یہ مندرجہ ذیل شرائط نہ پائی جائیں ۔

انتخابی دستور اور قانون عادلانہ ہو. جس میں ووٹ کا احترام کیا جائے. اور نتائج میں ھیرا پھیری کا راستہ روکا جائے۔

انتخابی الائنسز کے مابین اقتصادی ومعاشی ، تعلیمی اور خدمات کے عناوین کے تحت مقابلہ ہونا چاہیے اور قومی و طائفی حساسیت اور منفی پروپیگنڈے سے بچا جائے۔

انتخابی امور میں ہر قسم کی بیرونی مداخلت خواہ وہ مالی سپورٹ ہو یا کوئی اور اسکو روکا جائے. اور خلاف ورزی پر سخت سزائیں رکھی  جائیں۔

لوگوں کو بھی اپنے ووٹ کی قیمت کی قدر کرنی چاہیئے. اور ملک کے مستقبل میں اس ووٹ کے کردار کا انہیں شعور ہونا چاہیئے. نا اھل لوگوں کو سستے داموں ، اپنی نفسانی خواھشات وجذبات ، ذاتی و انفرادی مفادات اور قبیلے کے تعصب کی بنیاد پر ووٹ نہ دیں۔

ماضی کے انتخابات میں جو کمزوریاں اور خامیاں نظر آئیں اس کا سبب منتخب افراد اور جو حکومتی اعلی مراتب پر فائز ہوئے وہ تھے انھوں نے اپنے اختیارات اور مناصب وعہدوں کا ناجائز استعمال کیا  تھا. انھیں کی وجہ سے کرپشن پھیلی اور اموال عامہ کو ضائع کیا گیا جس کی ماضی میں بھی مثال نہیں ملتی. اپنے لئے بہت زیادہ تنخواہیں مقرر کی گئیں اور اپنے منصبی واجبات کی ادائیگی اور عوام کی خدمت میں نا کام رہےاور انہیں باعزت زندگی گزارے کا حق نہ دے سکےاور اس سبب ضروری شرائط کا فقدان تھا اور گذشتہ انتخابات میں کافی حد تک اس کا لحاظ نہیں رکھا گیا اور اس موجودہ انتخابات میں بھی اس کا کسی نہ کسی طریقے انہیں شرائط کا فقدان اسی تسلسل سے نظر آ رہا ھے. لیکن امید کی جاتی ہے کہ راستہ درست کر لیا جائے گا . اور غیرتمند فرزندان وطن کی محنت اور کوشش سے حکومتی اداروں میں اصلاحات کی جائیں گی . اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہر ممکنہ آئینی راستہ اختیار کیا جائے گا۔

2۔ انتخابات میں شرکت کی اہمیت

انتخابات میں شرکت کرنا ہر اس شہری کا حق ہے جس میں قانون کے مطابق ساری شرائط پائی جائیں. اور اس حق کے استعمال میں اسے کوئی مجبور بھی نہیں کر سکتا. ماسوائے یہ کہ وہ خود اپنے وطن کی عوام اور اپنے ملک کے بلند اور عالی مصلحتوں اور مفادات کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کا قائل ہو. اور اسے اس بات کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے کہ اگر وہ اپنا یہ حق استعمال نہیں کرے گا ، تو وہ پھر ان لوگوں کو پارلیمنٹ میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے کا موقع فراہم کرے گا جنکی توجہ ملک وعوام کے مفادات اور اعلی مصلحتوں  سے بہت دور ہو. لیکن پھر بھی شرکت کرنے یا نہ کرنے کا اختیار تنہا اسی ووٹر کے پاس ہے.اور وہ ہی اس کا زمہ دار ہے. اور اسے چاہیئے کہ وہ مکمل ہوشمندی اور اپنے ملک اور اسکی عوام کے وسیع تر مفادات کو نہایت حد تک ملحوظ خاطر رکھے

3۔ مرجعیت دینی سب امیدواروں کے ساتھ برابر فاصلے پر ہے

مرجعیت دینی اس بات کی تاکید کرتی ہے کہ وہ سب امیدواروں کے ساتھ برابر فاصلے پر ہے.اور اسی طرح سب انتخابی الائنسوں کے لئے بھی یہی موقف ہے. اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی خاص شخص ، گروہ یا الائنس کو سپورٹ نہیں کرتی. اور ووٹ دینے والوں کی صوابدید پر ہے. کہ پوری دقت کے ساتھ کس کو ووٹ ڈالتے ہیں. ووٹرز کسی شخص اور پارٹی کو اپنے انتخابی مقاصد  کے حصول کے لئے مرجعیت یا کسی اور مقدس عنوان سے سو استفادہ نہ کرنے دیں جس کا ساری عراقی عوام کے دلوں میں احترام ہے . تاکید اور یادھانی کرائی جاتی ہے کہ امیدوار کی اھلیت وصلاحیت ، بےبداغ ماضی ، اقدار و اصولوں کی پاسداری اور بیرونی ایجنڈوں سے دوری جیسے اصولوں کا خیال رکھا جائے. اور جس امیدوار میں وطن اور عوام کی خدمت کی خاطر قربانی کا جذبہ ، پروگراموں کے اجراء کی صلاحیت اور قدیمی مشکلات اور بحرانون سے نکالنے کی صلاحیت ہو اسے منتخب کیا جائےاور مزید تاکید یہ ہے کہ ووٹرز کو  امیدواروں اور الائنسوں کے سربراھان کی سیاسی جہت اور اھداف کا علم ہونا چاہیئے . بالخصوص انکا جو پہلے سابقہ انتخابات میں زمہ دار رہ چکے ہیں. تاکہ دھوکہ باز ، کرپٹ اور ناکام افراد کے پھندوں اور جال سے بچا جا سکے، جنہیں پہلے آزمایا جا چکا ہے یا نہیں. اللہ تعالیٰ العلی القدیر سے دعا گو ہیں کہ جس میں ملک کی بہتری اور عوام کی بھلائی ہے اس میں سب کی مدد کرے۔انه ولی ذلک وھو ارحم الراحمین مکتب السید سیستانی (دام ظلہ)النجف الاشرف17،شعبان 1439 

پاکستان میں الیکشن کے حوالے سے مراجع عظام سے معتبر ویب سائٹ حوزہ نیوز کی جانب سے سوال

سلام علیکم! پروردگار آپ کو صحت عطا فرمائے اور آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے چونکہ پاکستان میں انتخابات کا مرحلہ آنے کو ہے اور حوزہ نیوز کے مخاطبین مسلسل سوالات پوچھ رہے ہیں لذا جناب سے درخواست ہے کہ پاکستان کے انتخابات میں شیعوں کی شرکت کے حوالے سے اپنی نظر بیان فرمائیں۔
الف: ہر ملک اور خاص طور پر پاکستان کے شہریوں کے لیے انتخابات میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے ؟
ب: اگر انتخابات میں شرکت کرنا جائز ہے تو اس میں کن معیارات کا خیال رکھنا  ضروری ہے؟
با احترام و اکرام  ۔  حوزات علمیہ کی آفیشل نیوز ایجینسی

جوابات مراجع عظام:
  
3۔  جواب آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی

اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ شرکت کرنا اور با صلاحیت افراد کا انتخاب شیعوں کی ترقی اور تقویت کا باعث بنتا ہے لذا ضروری ہے کہ سب اس میں شرکت کریں۔    ناصر مکارم شیرازی   ۔

4۔ جواب آیت اللہ العظمی جعفر سبحانی

ہم یہاں دور سے کوئی قطعی فیصلہ نہیں دے سکتے لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ جب بھی متدین اور امور کو سمجھنے والے افراد نے انتخابات میں شرکت کی ہے اور کامیاب ہوئے ہیں اتنا ہی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس مسئلے میں پاکستان کے علما کی نظر معتبر ہے اور اس کی پیروی کرنا ضروری ہے 

حضرت امام (خمینی) فرمایا کرتے تھے کہ تمام انتخابات میں حاضر رہو۔  دفتر آیت اللہ العظمی جعفر سبحانی

5۔ جواب دفتر آیت اللہ العظمی سید محمد سعید حکیم

عصر حاضر میں الیکشن میں شرکت اور ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرنا ملت کا حق ہے اور یه (اگرچه محدود پیمانے پر ہی سہی) اصلاح امور اور ملک کی ترقی کا سنہری موقع هے ۔الیکشن کے سلسلے میں لوگوں کو تاکید کی جاتی ہے کہ وہ میدان میں آئیں اور لائق، صالح اور امین افراد کا انتخاب کریں۔خداوند متعال کے حضور دعاگو ہیں کہ وہ ہمارے عزیزوں کو دینی اور قومی ذمہ داری کو انجام دینے کی توفیق دے۔دفتر حضرت آیت اللہ العظمی سید محمد سعید حکیم

6۔ جواب آیت الله العظمی صافی گلپایگانی

اگر شیعیان اھلبیت(ع) کا انتخابات میں شرکت نہ کرنا ان کی کمزوری کا باعث بنے تو انتخابات میں ان کی شرکت لازم و ضروری ہے۔واللہ العالم ۔آیت اللہ العظمیٰ صافی گلگپائیگانی۔ 16/7/2018

رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای نے مومنین بحرین کیلئے  فرمایا کہ بحرین کے عوام کا مطالبہ آزاد اور شفاف انتخابات ہی ہیں۔ اسی بیان میں رہبر معظم نے یمن اور شام کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ بحرین   کیساتھ یمن اور شام کیساتھ بھی یہی مسئلہ ہے۔ ان کے علاوہ، آیت اللہ العظمیٰ باقر مدرسی کا بیان واضح ہے جس میں انہوں نے یمن میں استحکام کیلئے  یمنی عوام کو جمہوری حق دینے  اور الیکشن کے انعقاد کو لازمی قراردیا۔ سید مقاومت ، قائد حزب اللہ لبنان، سید حسن نصراللہ نے پارلیمانی انتخابات کو قومی طاقت کے احیا کا بہترین موقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم لبنانی عوام اور غیرت مند تحریک مزاحمت کی سچی آواز بن کر انتخابات میں حصہ لیں گے۔انہوں نے سیاسی، محکمہ جاتی اور انتظامی اصلاحات کو حزب اللہ کے انتخابی منشور کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر چہ ہم موجودہ انتخابی قوانین کی حمایت کرتے ہیں تاہم اس میں مزید بہتری کے خواہاں ہیں۔ اپنے خطاب میں سید حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ حزب اللہ آئندہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں بھر پور طریقے سے حصہ لے گی اور مختلف شعبوں میں ملک کو آگے بڑھانے کے لیے اپنا سیاسی کردار ادا کرتی رہے گی۔

نوٹ: ان مطالب کو ایک ساتھ بیان کرنے کا مطلب ہرگز علمائے کرام کی خدمات سے انکار نہیں۔بلکہ یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ مراجع عظام اور دنیا کے مختلف ممالک میں انکی روش اور بیانات کی روشنی میں موجودہ حالات اور دور میں جمہوری طرز عمل کو بمقابلہ امامت سمجھ کر اس سے قطع تعلق ہونا، انکارربوبیت قرار دینا، یزید کو ووٹ دینے کے مترادف قراردینا بالکل بھی عقلی نہیں۔لیکن پھر بھی اگر کوئی سمجھتا ہے کہ مراجع عظام کی جانب سے  ان واضح ترین فتاویٰ کے باجود بھی کسی عالم دین اور طلاب کو خود ہی قرآن اور احادیث سے کچھ اور ثابت کرنے اور شرک وغیرہ قراردینے کا اختیار ہے ،تو شاید کوئی زبردستی انکو منع کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ حقیقت یہ ہے کہ مراجع عظام سے زیادہ کسی کو قرآن و احادیث پر دسترس نہیں، اور انہی کو اختیار ہے کہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق فتاویٰ جاری کریں جس پر عمل کرنا  سب پر لازم ہے۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری