تعلیمات دین کی روشنی میں الیکشن 2018ء پاکستان


تعلیمات دین کی روشنی میں الیکشن 2018ء پاکستان

الیکشن کا موسم ہے اور دینی رہنما بھی اس الیکشن میں موجود ہیں۔ اس وقت مکتب اہل البیت علیہ السلام کے ماننے والوں کے درمیان ایک بحث جاری ہے کہ کیا الیکشن میں حصہ لینا جائز ہے یا نہیں؟

خبر رساں ادارہ تسنیم: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن و تعلیمات محمد و آل محمد علیہم السلام کی روشنی میں اس کائنات کا رب فقط اللہ تبارک وتعالیٰ ہے۔ یعنی صرف اللہ تبارک و تعالیٰ ہی قانون ساز اور حاکم ہے۔ جب کہ مغربی جمہوریت میں قانون ساز اسمبلی ہوتی ہے اور حاکم عوام کے نمائندے ہوتے ہیں۔ اس لیے مغربی جمہوریت سے اسلام کا تعلق نہیں ہے۔ مسلمانوں کے ابتدائی دور میں بادشاہتیں رہی ہیں جن سے بھی دین اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر ملک پاکستان میں رائج نظام کو مغربی جمہوریت مانا جائے تو پھر سیرت محمد و آل محمد علیہم السلام کی روشنی میں ہماری ذمہ داری کیا ہوگی؟ اس کا واضح جواب یہ ہے کہ: 

1۔ ہمیں دینی نظام کے قیام کے لیے کوشش کرنی ہوگی ہماری زیادہ تر توجہ اسی پر رہنی چاہیے اور غیر اسلامی نظام کے ساتھ کسی بھی طرح کا تعاون نہیں کرنا چاہیے۔ جیسے عباسی بادشاہتوں کے دوران آئمہ اہل البیت علیہم السلام نے مسجد بنانے میں بھی عباسیوں سے تعاون کرنے سے منع فرمایا ہے۔ 

2۔ لیکن جب تک اسلامی نظام کا قیام عمل میں آئے مسلط نظام سے کسی طرح کا کوئی ریلیف لینے کے لیے نظام میں شامل ہوا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب بھی واضح ہے کہ جائز ہے۔ اس کی مشہور مثال ہارون عباسی کے دربار میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی طرف سے علی بن یقطین کو بھیجا جانا ہے۔ معلوم ہے کہ علی بن یقتین ہارون کا وزیر بنا۔ لیکن وہ ہارونی بادشاہت کو دین نہیں سمجھتا نہ دلی طور پر اس نظام اور بادشاہ کو اپنا رہبر سمجھتا ہے، وہ امام حضرت موسیٰ کاظم کو مانتا ہے اور نظام ولایت اہلبیت پر ایمان رکھتا ہے، لیکن ریلیف لینے کے لیے تقیہ میں بادشاہ کے ساتھ بیٹھا ہے، بلکہ امام نے خود بھیجا ہے۔ اس نے کئی دفعہ عرض بھی کیا تھا کہ مجھے اجازت دیں میں استعفیٰ دوں۔ لیکن امام نے اجازت نہیں دی۔ یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ ریلیف لینے کے لیے کوئی ایسا طریقہ انتخاب نہ کیا جائے جو دینی نظام کے قیام کی اصل جدوجہد پر برے اثرات مرتب کرے۔ اسی لیے اس دور میں علی بن یقطین اپنی شیعی شناخت کے ساتھ نہیں گیا بلکہ اپنا ایمان چھپا کر گیا تھا۔ 

اس وقت ایک طرف ہمارے وہ دینی پارٹیاں ہیں جو اپنی حقیقی جدوجہد پر سے ہاتھ اٹھائے ہوئے ہیں اور صرف الیکشن کی سیاست کر رہی ہیں۔ دوسری طرف وہ تحریکیں ہیں جو پہلے نکتے پر ہی کام کر رہی ہیں اور دوسرے نکتے سے روک رہی ہیں بلکہ اسے ربوبیت خدا کے انکار سے تعبیر کر رہی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ربوبیت خدا کا انکار تب ہوگا جب کوئی دل سے مغربی جمہوریت کو اپنا نظام سمجھے اور اس پر ایمان رکھے۔ لیکن اگر دل سے نہیں مانتا بلکہ مجبوری کی حالت میں ریلیف لینے کے لیے نظام کا حصہ بنے تو حقیقت میں وہ نظام کا حصہ نہیں ہے، جیسے علی بن یقطین۔

اس طرف بھی توجہ ہونی چاہیے کہ جب آئین پاکستان میں یہ اصول موجود ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں بن سکتا، کیا اب بھی اس آئین اور اسکے تحت چلنے والے نظام کو باطل نظام کہا جائیگا؟ اس کا جواب ہاں میں دینا اتنا آسان نہیں ہے بلکہ صاحب الجواہر کی زبان میں "دونه خرط القتاد" ہے۔

تحریر: سید حسین موسوی

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری