خصوصی تحریر|پاکستان کی نئی حکومت کو درپیش معاشی چیلنجز


خصوصی تحریر|پاکستان کی نئی حکومت کو درپیش معاشی چیلنجز

تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ کے  اربوں ڈالر  مالی خسارے اور قرضوں میں جکڑی معیشت کی بحالی جہاں نئی حکومت کے لئے اہم ترین چیلنج قرار دیا جا رہا ہے

خبر رساں ادارہ تسنیم: پاکستان میں عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کا عمل جاری ہے، گو کہ پاکستان تحریک انصاف کو  وفاق  کے ساتھ پنجاب اور  خیبرپختون خوا  میں حکومت بنانے کے لئے مقررہ نشستوں کی تعداد حاصل ہوگئی ہے، ساتھ ہی بلوچستان میں بھی مخلوط حکومت قائم ہونے کا قوی امکان ہے، اس کے یعنی وفاق کے ساتھ تین صوبوں میں حکومت رکھنے والی پی ٹی آئی کو جہاں سیاسی محاز پر سخت اپوزیشن کا سامنا ہوگا، وہیں پہلی بار وفاق  کا انتظام سنبھالنے والی نئی سیاسی جماعت کو معاشی بساط پر بھی کڑی آزمائشیں اور مشکل فیصلے اس کے منتظر ہوں گے۔
تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ کے  اربوں ڈالر  مالی خسارے اور قرضوں میں جکڑی معیشت کی بحالی جہاں نئی حکومت کے لئے اہم ترین چیلنج قرار دیا جا رہا ہے، وہیں مالیاتی شعبے کو چلانے کے لئے فنڈز کی دستیابی بھی نئی حکومت کے لئے  بڑا مسئلہ بن کر سامنے آرہا ہے۔ 
بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز انویسٹرز اور بلوم برگ نے اپنی  حالیہ رپورٹس  میں پاکستان کی اقتصادی حالت بڑی کمزور بیا ن کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ  جاری کھاتوں کا بڑھتا خسارہ  اور  زرمبادلہ کے گرتے  ذخائر کو سہارا دینا نئی حکومت کے لئے بڑا چیلنج ہوگا،  گذشتہ مالی سال تک بیرونی تجارت میں پاکستان کو سینتیس ارب ستر کروڑ ڈالر سے زائد خسارہ ہوا، تیس جون تک درآمدی مالیت ساٹھ ارب ڈالر سے زیادہ ریکارڈ کی گئی، اس کے برعکس برآمدات کا حجم محض تیئیس ارب ڈالر تک محدود رہا،  اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کئی بار غیرضروری اشیا کی درآمد پر روک لگاتے ہوئے سو فیصد کیش مارجن کی پابندی عائد کی،  بھاری درآمدی بل میں کمی کے لئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے بھی  سیکڑوں اشیا پرریگولیٹری ڈیوٹی  میں سو فیصد تک اضافہ کیا،  اس کے باوجود ہمارے طرز زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا، پہلے ہم تیس چالیس ارب ڈالر کی اشیا درآمد کر رہے تھے، اب یہ حجم ساٹھ ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے، گو کہ مجموعی درآمدات میں خام تیل اور فرنیس آئل سمیت ادویات کے لئے کیمکلزم  اور بھاری مشینری وغیرہ بھی شامل ہیں، لیکن  روزمرہ استعمال کی اشیا کی درآمد کا بوجھ پاکستان جیسا ترقی پزیر ملک برداشت نہیں کرسکتا۔ 
گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ بھی پریس کانفرنس میں اس جانب اشارہ کرچکے ہیں کہ  بے جا درآمدات کو نہ روکا  گیا تو توازن تجارت مزید مشکلات سے دوچار ہوتا جائے گا، کچھ اسی قسم کے خیالات نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کے بھی ہیں، مختصر وزارت کے دوران بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ جیلی، مکھن اور سیب وغیرہ  اٹلی، جرمنی، دبئی وغیرہ سے خریدنے  کی کیا ضرورت ہے،  ڈاکٹر شمشاد اختر اپنے واضح اور دوٹوک  موقف  کے باعث کاروبار ی برادری میں خاصی شہرت رکھتی ہیں، انھوں نے گورنر اسٹیٹ بینک کی حیثیت سے بھی ہمیشہ مالی خودمختاری اور معاشی ترقی پر زور دیا، جس کے لئے اقدامات بھی کئے، اور تاجر برادری کی ناراضگی مول لی، بہرحال بیرونی تجارت کا خسارہ جس پر سب ہی تشویش کا اظہار کر رہےہیں، بلاشبہ نئی حکومت کے لئے اہم چیلنج ہوگا، اس کے ساتھ ہی جاری کھاتوں کا خسارہ بھی نئی حکومت کی اقتصادی ٹیم کو ٹف ٹائم دے گا۔ لاکھ جتن کرنے اور مراعاتی پیکج کے باوجود پاکستان کی برآمدات میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہورہا، البتہ ماضی کی نسبت برآمدی حجم میں تقریبا تین سے چار ارب ڈالر کمی ہوئی ہے، ساتھ ہی ترسیلات زر جو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، ان میں بھی کمی ہورہی ہے ۔مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال، سعودی عرب کی معاشی حالت اور تارکین وطن کی پاکستان واپسی، متحدہ عرب امارات میں ویزا کی سختیاں ، امریکا سے پاکستان کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے باعث نہ صرف ہزاروں پاکستانی وطن واپس آچکے ہیں، بلکہ ان کے واپس لوٹنے سے ان رقوم میں بھی نمایاں کمی آئی ہے، جو وہ وہاں سے یہاں ترسیل کرتے تھے، اعداد و شمار کے مطابق  جولائی دوہزارسترہ سےجون دوہزار اٹھارہ کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے انیس ارب باسٹھ کروڑ ڈالر  پاکستان ترسیل کئے۔اس دوران خلیجی ملکوں سے بھیجی گئی رقوم میں نمایاں کمی دیکھی گئی،سعودی عرب سےترسیلات  میں دس کروڑ ڈالر کمی ہوئی، اور اس کی مالیت تینتیس کروڑ چھیاسٹھ لاکھ ڈالر رہی، متحدہ عرب امارات سے ترسیلات میں سات کروڑ ڈالر کمی ہوئی، اور صرف چونتیس کروڑ ڈالر موصول ہوئے، امریکا سے دو کروڑ ڈالر کمی کے ساتھ صرف چوبیس کروڑ اکیاون لاکھ ڈالر ترسیل کئے گئے ، اسی طرح  خلیج تعاون کونسل سے بھیجی گئی رقوم سات کروڑ ڈالر کمی کے بعد سولہ کروڑ پینتیس لاکھ ڈالر رہیں، تاہم یورپی یونین سے ترسیلات باون کروڑ ڈالر معمولی اضافےسے چھ کروڑ اکیس لاکھ ڈالر ریکارڈ کی گئیں۔ملائیشیا، ناروے،سوئٹزر لینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا، جاپان اور دیگر ملکوں سے انیس کروڑ چہیتر لاکھ ڈالر بھیجے گئے۔آئی ایم ایف سے لئے گئے پچھلے قرضے کی  ادائیگی کے باعث غیرملکی ذخائر پر بوجھ ہے، جس کی وجہ سے کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپیہ پر دباؤ دیکھا جا رہا ہے، رواں سال اب تک روپے کی قدر میں تقریبا بائیس سے پچیس فیصد کمی ہوئی،  انٹربینک مارکیٹ میں امریکی کرنسی کی قیمت  ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک سواٹھائیس روپے پچاس پیسے پر پہنچ گئی، جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت فروخت ایک سو اکتیس روپے ریکاڑد کی گئی، گو کہ سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف سے سات ارب ساٹھ کروڑ ڈالر قرضہ لیا  اور مالیاتی ادارے کا پروگرام مکمل ہونے کے بعد اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قرضہ کو کشکول توڑنے کا دعویٰ کیا، لیکن حکومت کے جاتے ہی ایسا محسوس ہورہا ہے، کہ نئی حکومت کو ورثے میں خالی خزانہ ملے گا، جسے بھرنا یقینا ایک امتحان ہوگا۔ 
معروف مالیاتی تجزیہ کار مزمل اسلم کے مطابق معاشی مسائل نئی حکومت کے منتظر ہیں، سینتیس ارب ڈالر کی درامدات، ترسیلات زر میں کمی، توازن ادائیگی کی بگڑی صورتحال اور زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر یقیناً نئی حکومت کے لئے کڑا امتحان ثابت ہوں گے،  مالی مشکلات سے بچنے کے لئے پاکستان کو فوری طور پر دس  سے  پندرہ  ارب ڈالر کی ضرورت ہے،  پاکستان کے پاس چونکہ اس قدر وسائل موجود نہیں کہ اپنی ضرورت کا انتظام خود کرسکے، لہذا مالی مسائل حل کرنے کے لئے پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض لینا پڑ سکتا ہے۔
ادھر امریکا کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے آئی ایم ایف  سے پاکستان کے لئے مشروط بیل آؤٹ پیکج کا مطالبہ کیا ہے، امریکا  اور چین کے درمیان سرد  اقتصادی جنگ کے پیش نظر امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ملنے والا فنڈ چینی قرضے کی ادائیگی میں استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان کے معروف معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے امریکی وزیر خارجہ کے بیان کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے ان کے بقول عالمی مالیاتی فنڈ پاکستان اور دیگر ترقی پزیر ملکوں کو قرضہ دینا چاہتا ہے، جبکہ پاکستان اس سے قبل بھی کئی بار آئی ایم ایف کا پروگرام لے چکا ہے، لیکن امریکا کی جانب سے ڈومور کا مطالبہ زور پکڑنے پر پاکستان نے کافی سخت رویہ اختیار کیا، جس کے جواب میں اب امریکا پاکستان سے کچھ ظاہری سختی برت رہا ہے، ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لینے کے علاوہ پاکستان کے پاس کوئی آپشن نہیں۔ 
پاکستان کے پاس غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائرکی مالیت صرف نو ارب ڈالر ہے، جو بامشکل دو ماہ کی درآمدی ضروریات کے لئے کافی ہے، ساتھ ہی آئی ایم ایف سے لئے گئے پچھلے  قرضے ، درآمدات  اور یورو بانڈز کی ادائیگی بھی ملکی خزانے پر بوجھ ہے، جن کے لئے رقم کا بندوبست کرنا بہرحال نئی حکومت کی ذمہ داری ہوگی، امریکا اکثر پاکستان جیسے ترقی پزیر ملکوں کی معیشت اور سیاست پر حاوی ہونے کی کوشش کرتاہے، اس بار بھی امریکی وزیر خارجہ کا بیان نئی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لئے ہی ہے، کیونکہ امریکا چین سے اقتصادی جنگ لڑ رہا ہے، اور اس کے بدلے میں وہ پاکستان کو استعمال کرنا چاہ رہاہے، اسی لئے آئی ایم ایف کو دھمکا رہا ہے کہ اگر قرضہ دیا جائے تو اس سے چینی قرضے کی ادائیگی نہ ہونے دی جائے۔پاکستان اور چین کے درمیان تقریبا پچپن ارب ڈالر کا اقتصادی راہداری منصوبہ ابتدا سے ہی امریکا کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے،  جبکہ اب چین عالمی افق پر سپر پاور بننے جا رہا ہے، جو امریکا سے کسی طرح ہضم نہیں ہو رہا ، اسی لئے امریکا چین کو  نقصان پہنچانے کے لئے  پاکستان پر کڑی شرائط  عائد کر رہا ہے۔
اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاک چین دوستی ہمیشہ سے ہی لازوال رہی ہے، جس میں وقت گزرنے کے ساتھ مزید اضافہ ہو رہا ہے، چین نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا  ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ بھی اسی دوستی کا ایک ثبوت ہے۔ 
مالی تجزیہ کار خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ  اگرچہ پاکستان کی مالی صورتحال بہتر نہیں، ٹیکس آمدن کم اور اخراجات زیادہ رہے، جس کی وجہ سے مالی خسارہ کافی بڑھ گیا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ  آئی ایم ایف سے قرضہ ہی مشکل کا آخری حل ہے، خرم شہزاد نے مزید کہا کہ عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے واضح برتری حاصل کی ہے، اگر اس پارٹی کے چیئرمین عمران خان جو متوقع وزیر اعظم بھی ہیں، وہ ملکی اور غیرملکی سطح پر بہت بہتر ساکھ رکھتے ہیں، جبکہ لوگ ان پر اعتماد بھی کرتے ہیں، جب وہ شوکت خانم اسپتال کے لئے چند گھنٹوں میں عوام سے کروڑوں روپے جمع کرسکتے ہیں، تو اگر وہ ملک کی بہتری کے لئے سمندر پار پاکستانیوں سے درخواست کریں کہ جو بھی پیسہ پاکستان بھیجیں، بینکنگ چینل سے بھیجیں، تو میرا خیال ہے کہ جو سالانہ انیس بیس ارب ڈالر آرہے ہیں، اس کی جگہ چالیس ارب ڈالر پاکستان آئیں گے، جس سے صورتحال بہتر ہوگی، اس کے علاوہ بین الاقوامی مارکیٹ میں بانڈز کے اجرا سے بھی رقم آسکتی ہے، جبکہ چین اور سعودی عرب بھی نئی حکومت کی مدد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف نے ہمیشہ ٹیکس آمدنی بڑھانے  اور سادگی اختیار کرنے پر زور دیا ہے، جس کا مقصدغربت اور بیروزگاری میں کمی کے نتیجے میں عوام کا معیار زندگی بہتر بنانا ہے، عمران خان نے الیکشن میں  کامیابی کے بعد قوم سے اپنے خطاب میں معاشی اصلاحات کے ساتھ  روزگار کی فراہمی کی یقین دہائی کروائی ہے، پی ٹی آئی کے رہنما اور متوقع وزیر خزانہ اسعد عمر کا کہنا ہےکہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں، ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے صرف ایک سو پچیس ارب روپے ٹیکس حآصل ہوسکا، جبکہ پاکستان کو ہر ماہ دو ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔
اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ  نئی حکومت کو معاشی میدان میں سخت اقدامات اٹھانا پڑیں گے،تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے نمٹنے کے لئے فوری طور پر  رقم کا انتظام کرنا ہوگا،  دس سے پندرہ ارب ڈالر کا انتظام کہاں  سے ہوگا،  چین اور سعودی عرب یا کوئی اور دوست ملک آئی ایم ایف کے قرضے کا متبادل نہیں ہوسکتا،   لیکن امریکا آئی ایم ایف کے قرضہ کو مشروط کرنا چاہ رہا ہے، جس کا مقصد مالی معاونت کے نتیجے میں پاکستان اور چین کی دوستی میں دراڑ ڈالنا ہے، اس سے پہلے بھی آئی ایم ایف نے جب بھی قرضہ  دیا، روپے کی بے قدری، بجلی کے ٹیرف میں اضافہ، مہنگی گیس، ٹیکسوں کی تعداد اور شرح میں اضافے جیسے شرائط مسلط کیں، تاہم تمام تر مشکلات کے باجود  پاکستان کی تاجر برادری نئی حکومت کے شانہ بشانہ ہے، فیڈریشن ہاؤس، کراچی چیمبر اور دیگر تاجر تنظیموں کے نمائندے عمران خان کی حکومت کے ساتھ کام کے لئے تیار ہیں،  انھیں یقین ہوچلا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نے الیکشن سے پہلے  معاشی ترقی کے لئے جو ان سے وعدے کئے تھے،  اب ان کے وفا ہونے کا وقت آ پہنچا ہے۔

تحریر: صفدر عباس

 

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری