آستان قدس رضوی کی کوشش سے؛ ہندوستان میں شیعوں کا مقام کے موضوع پر خصوصی میٹنگ منعقد ہوئی+ تسنیم کی خصوصی ویڈیو


آستان قدس رضوی کی کوشش سے؛ ہندوستان میں شیعوں کا مقام کے موضوع پر خصوصی میٹنگ منعقد ہوئی+ تسنیم کی خصوصی ویڈیو

ہندوستان میں شیعوں کا مقام" کے موضوع پر آستان قدس رضوی کے اسلامی تحقیقات فاؤنڈیشن کی کوشش سےخصوصی میٹنگ منعقد ہوئی۔

تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق،کل "ہندوستان میں شیعوں کا مقام" کے موضوع پر  آستان قدس رضوی کے اسلامی تحقیقات فاؤنڈیشن کے شیخ طوسی ہال میں خصوصی میٹنگ منعقد ہوئی کہ جس میں ہندوستان سے  کافی تعداد میں محققین موجود تھے۔
اس پروگرام میں مہدی خواجہ پیری ؛ دہلی میں مرکز میکروفیلم نور کے بانی نے بیان کیا : ہندوستان میں شیعیت کی تاریخ بہت قدیمی ہے کہ جس کا تعلق حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے زمانے سےہے ،ہندوستان میں  شیعوں کا ایک عظیم مقام تھا ، یہاں تک کہ مذہب شیعہ کی عظیم ترین کتابیں شہر لکھنو میں لکھی گئی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ہمارے پاس شیعہ مذہبی خطی نسخوں کی 80 ہزار تصاویر موجود  ہیں اور ہندوستان کے انصار کا شجرہ نامہ بھی تدوین ہوچکا ہے کہ جس کا طول 300 میٹر ہے اور بعض شجروں میں 80 ہزار نام تک درج ہوچکے ہیں۔
خواجہ پیری نے مزید کہا: 270 کتابوں کی فوٹو اسٹیٹ،فلم اور اسی طرح نہج البلاغہ کے 30 نسخوں کی تصاویر مرکز میکروفیلم نے انجام دی ہے ۔ ہندوستان سے 10 لاکھ سے زیادہ اسناد جمع کی جاچکی ہیں اور 350 جلد ان اسناد کے ذریعہ زیورطبع سے آراستہ ہوچکی ہیں اور ابھی بھی ان اسناد کے تحت 700 جلد کتابیں دیگر طبع کی جاسکتی ہیں۔
انہوں نے کہا: ہندوستان کے دینی مدارس میں سب سے عظیم اور بڑا مدرسہ؛ مدرسۃ الواعظین تھا  کہ جس سے فارغ التحصیل ہونے والے علماء 3 سال کے لیے تبلیغ پر جاتے اور پھر ان کو "واعظ" کی سند دی جاتی تھی ۔ اس مدرسہ کی لائبریری بہت عظیم اور غنی ہے کہ جو آستان قدس رضوی کے نام وقف ہے ۔ بہت افسوس ہے کہ عصر حاضر میں اس  مدرسہ میں  بہت سی مشکلات کے سبب درس و تدریس ختم ہوچکی ہے ۔
محمد امیر محمد خان نے اظہار خیال کیا: دنیا اسلام اور مذہب شیعہ کی  بہت سی حقیقتوں سے ناواقف ہے ۔
انہوں نے مزید کہا: شیعہ مفکرین نے بہت سی کتابیں تحریر کی ہیں، لیکن وہ مطالب آج کے مخاطبین کے لیے کافی نہیں ہیں بلکہ اور بھی زیادہ تحقیق کی ضرورت ہے۔
محمد خان نے کہا: بہت افسوس ہے کہ ہم عصر حاضر میں ایک انحراقی فرقہ کے وجود کے شاہد ہیں کہ جو انگریزوں کا بنایا ہوا ہے ، وہ لوگ ماہانہ  اربوں روپیے شیعہ مبلغین پر خرچ کرتے ہیں  اور اس طریقے سے غریب شیعوں کی مدد کرکے ان کو اپنی طرف جذب کررہے ہیں۔
انہوں نے  اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ہمارے پاس علماء ان کےمناسب جوابات اور مناظرہ کرنے کے قابل نہیں  ہیں، کہا: مدرسۃ الواعظین کو دوبارہ احیاء کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حقیقی مذہب شیعہ کی ترویج و تبلیغ ہوسکے۔ حقیقی شیعہ کبھی بھی انگریزوں کے بنائے ہوئے منحرف فرقے سے مدد حاصل نہیں کرتے۔
محمد علی احمد خان ؛ ہندوستان کی اشوک یونیورسٹی کے پروفیسر نے کہا: انگریزوں نے ہندوستان میں معاشرہ اور سماج  کا مطالعہ کیا ہے اور پھر لوگوں کو منحرف کرنے کے لیے اس فرقہ کا انتخاب کیا ۔ وہ لوگ دینی کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتے اور مذہبی لوگوں میں انتہائی جاہل لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا: اگر ہندوستان میں تحقیق اور روشن خیالی و بیداری نہ لائی گئی تو ہندوستان میں مذہب شیعہ ختم ہوجائے گا اور دنیا میں ایک مذہب کا نظریہ اسی کو چاہتا بھی ہے ۔
ہندوستان کی اشوک یونیورسٹی کے پروفیسر نے مزیدکہا: اسرائیل بھی تحقیق کررہا ہے کہ اگر  ایران دنیا میں انقلاب کو پھیلائے گا تو دنیا کے شیعہ اس کے ساتھ کیا تعاون کریں گے ؟ اور اس نے اپنے اس ہدف کے لیے ایک کمیٹی کو لکھنؤ بھیج دیا ہے ۔

 

 

اہم ترین ایران خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری