نیند میں کبھی کبھی اردو بات کرتا ہوں، اردو کے جاپانی پروفیسر


نیند میں کبھی کبھی اردو بات کرتا ہوں، اردو کے جاپانی پروفیسر

مشہور مصنف ملک راج آنند کی ایک کتاب نے جاپان کے سو یامانے کی زندگی کو تبدیل کر دیا تھا، اور وہ آج اس سفر میں یہاں تک آ پہنچے ہیں کہ اوساکا یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر ہیں اور اردو شاعری میں بھی طبع آزمائی کر رہے ہیں ۔

تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، سو یامانےکا کہنا ہے کہ اردو غزل کو سمجھنا ہے تو عشق میں ناکامی ضروری ہے، اور عشق میں ناکام ہونے کے بعد اب وہ بھی اردو میں غزل کہتے ہیں۔

اپنی محبوبہ کے بارے میں یامانے بتاتے ہیں کہ وہ اردو نہیں جانتی تھی، لیکن اردو کے بارے میں جانتی تھی۔

تو کیا آپ کے خیال میں اپنی محبوبہ کو اردو نہیں سکھانی چاہئے تھی ، بی بی سی کے نمائندے کے سوال پر انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا ’’ہاں سکھانی تو چاہیٔے تھی، لیکن انہوں نے مجھے بےوفائی کرنا سکھادی۔‘‘

سویامانے کی ایک غزل:

دوسروں کے غم میں رونا چاہیٔے

تیرا دکھ میرا بھی ہونا چاہیٔے

پھیلتی جائے گی اردو کوبہ کو

بیج اس کا دل میں بونا چاہیٔے

میرے اشکوں میں تیری تصویر ہو

اور مجھ کو خوب رونا چاہیٔے

جاگتا رہتا ہوں اس کے ہجر میں

سو یامانےؔ اب تو سونا چاہئے

سو یامانے نے بتایا کہ اوساکا یونیورسٹی میں اردو زبان پر چار سال کا بی اے کا کورس ہوتا ہے۔ اس کورس میں ہر سال بیس طالبعلم داخلہ لیتے ہیں۔ زیادہ تر جاپانی یہی سوچ کر داخلہ لیتے ہیں کہ انہیں اس سے اپنا کیریئر بنانے میں مدد ملے گی۔

لیکن یامانے بتاتے ہیں ’’بیس میں سے ایک آدھ ایسے ہیں جو ہندوستان کی فلمیں دیکھ کر ہمارے یہاں داخلہ لیتے ہیں۔ کوئی لڑکی کہے گی کہ میں شاہ رخ خان کی دیوانی ہوں اور ان سے ملنا چاہتی ہوں، اور یہ سوچ کر وہ ہمارے کورس میں داخلہ لے لیتی ہے ۔‘‘

لیکن یامانے کہتے ہیں کہ ان لوگوں کو ہی ایسے کورسز میں داخلہ لینا چاہیٔے جن کی دلچسپی ہو۔ اگرچہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں کورس کے دوران دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے۔

جہاں تک سو یامانے کا تعلق ہے تو وہ خود بھی ہندی فلموں کے بے حد شوقین ہیں۔ وہ بتاتے ہیں ’’تھری ایڈیٹس فلم، میں نے اپنی کلاس میں دکھائی تھی۔ ہندوستان کے طالبعلموں کے بارے میں یہ ایک اچھی فلم ہے، کئی لوگ تو اسے دیکھ کر رو پڑے تھے۔‘‘

سو یامانے جاپان سے دہلی ایک مشاعرے میں شرکت کے لئے آئے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کی یونیورسٹی میں ایک پروفیسر باقاعدہ فلمی گیتوں کو پڑھاتے ہیں۔

انہوں نے کہا’’مجھے لگتا ہے کہ کبھی عاشق کامیاب نہیں ہوتا، ہمیشہ بے وفائی ہوتی ہے اور وہ ناکام ہو جاتا ہے، اور اسی سے گیت کا لطف آ جاتا ہے۔‘‘

اردو شاعری کو جذبات کا سمندر قرار دیتے ہوئے سو یامانے کہتے ہیں ’’میر تقی میر نے کبھی اپنی زندگی میں نہیں سوچا ہوگا کہ دو سو سال بعد کوئی جاپانی ان کی غزل کو پسند کرے گا ۔‘‘

سو یامانے کی مادری زبان جاپانی ہے اور اردو سے انہیں عشق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دونوں زبانیں ان کے دل میں بستی ہیں، یہ بات الگ ہے کہ نیند میں کبھی کبھی اردو بھاری پڑتی ہے ۔

وہ بتاتے ہیں ’’کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو چار دوستوں کے ساتھ گھومنے جاتا ہوں۔ ایک ساتھ ہی سب سو ​​جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کبھی کبھی تم سوتے وقت اردو میں بات کر رہے ہوتے ہو ۔‘‘

پروفیسر سو یامانے کے مطابق انہیں اردو میں جذبات کا اظہار اچھا لگتا ہے اور اس لیے وہ اس بات کو بڑے فخر سے کہتے ہیں ’’میں اردو سے عشق کرتا ہوں اور یہ میرے لیے ایک نشہ بھی ہے ۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ جاپان میں اردو گزشتہ 90 سال سے پڑھائی جا رہی ہے۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری