2030 تک کراچی کی آبادی 3 کروڑ 20 لاکھ ہوجائے گی، عالمی بینک


2030 تک کراچی کی آبادی 3 کروڑ 20 لاکھ ہوجائے گی، عالمی بینک

عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق ملک کے دیگر علاقوں سے تیزی سے ہونے والی نقل مکانی کے باعث سال 2030 تک کراچی کی آبادی 3 کروڑ 20 لاکھ ہوجائے گی۔

عالمی بینک کی جانب سے کرائے گئے کراچی سٹی ڈائیگنوسٹک سروے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں ملک کے دیگر علاقوں سے ہونے والی نقل مکانی کے باعث آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے لیکن شہر کی معیشت میں کمی واقع ہوئی ہے، تیزی سے ہونے والی نقل مکانی کے باعث 2020 تک کراچی کی آبادی2کروڑ 75 لاکھ اور 2030 تک 3 کروڑ 20 لاکھ ہوجائے گی، 1999 سے 2010 تک دیگر شہروں کے مقابلے میں کراچی کی معاشی ترقی کی رفتار کم رہی۔

کراچی میں تیزی سے ہونے والی نقل مکانی کے باعث مزدوروں یا کام کرنے والے لوگوں کی تعداد میں تو اضافہ ہوا لیکن اس تناسب سے معاشی ترقی نہیں ہوئی، ملک کے دیگر شہروں کی تجارتی سرگرمیوں میں بجلی سب سے بڑی رکاوٹ ہے تاہم کراچی کے کاروباری مسائل میں بجلی کی کمی کے علاوہ کرپشن، سیاسی عدم استحکام اور کرائم بھی اہم اسباب ہیں، کراچی میں بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث شہر میں رہنے والے لوگوں کا معیار زندگی بری طرح متاثر ہوا ہے۔

لوگوں کے بنیادی مسائل میں اضافہ ہوا ہے اور شہریوں کے لیے موجود بنیادی سہولتوں میں کمی واقع ہوئی ہے، ان میں پینے کے پانی کی کمی، سیوریج کے مسائل اور ٹرانسپورٹ کی بگڑتی ہوئی صورتحال شامل ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں انفرااسٹرکچر کی کمی کو پورا کرنے کے لیے شہر کو آئندہ 10 سال کے اندر کم ازکم 9 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی کیونکہ صحت، تعلیم اور ماحول کی بہتری اور میونسپل سروسز کے لحاظ سے کراچی دنیا کے ان شہروں میں شامل ہے جہاں زندگی کی کم سہولتیں میسر ہیں، شہر میں تقریباً تمام پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام غیر رسمی ہے، کراچی کی آدھی آبادی کو پانی میسر نہیں، جن علاقوں میں پانی دستیاب ہے وہاں بھی ہر 2 دن کے بعد 2 سے 4 گھنٹے تک پانی ملتا ہے۔

اکسپرس نیوز کے مطابق شہر کی60 فیصد سے بھی کم آبادی کو سیوریج نظام کی سہولت میسر ہے جبکہ شہر کا تقریباً تمام سیوریج سمندر میں چھوڑدیا جاتا ہے، شہر میں جمع ہونے والے کچرے کا صرف 40 فیصد اٹھایا جاتا ہے، شہر میں 2001 سے 2013 کے درمیان سرسبز جگہوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہر کا میونسپل نظام کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن اور 6 ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز میں تقسیم شدہ ہے جن کے پاس فنانشل مینجمنٹ کا جدید نظام موجود نہیں ہے، شہر کا صرف 7 فیصد ریونیو کے ایم سی وصول کرتی ہے، شہر کے بلدیاتی اداروں کی آمدنی انفرااسٹرکچر کی بہتری اور میونسپل خدمات فراہم کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

بلدیاتی اداروں کے پاس مجموعی ریونیو کا صرف 10 فیصد آمدنی ترقیاتی اخراجات کے لیے دستیاب ہوتا ہے جس کے باعث کے ایم سی کے مجموعی اخراجات کا 74 فیصد اور ڈی ایم سیز کا 87 فیصد اخراجات کا انحصار حکومت سندھ پر ہوتا ہے، جبکہ فنڈز دیر سے جاری ہونے کے باعث شہر کے بلدیاتی اداروں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔

عالمی بینک کی رپورٹ میں شہری اداروں کے درمیان رابطے اور تعاون کے فقدان کی نشاندہی بھی کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ شہر میں مالی اور انتظامی مسائل کا ایک سبب شہری اداروں کے درمیان رابطے و تعاون کا فقدان بھی ہے۔

 رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کے ایم سی اور ڈی ایم سیز میں رسمی طور پر کوئی رابطہ نہیں ہے جبکہ شہر کے کئی امور کافی حد تک حکومت سندھ کے کنٹرول میں ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہری ماحول میں مجموعی ابتری سے شہر کی نوجوان نسل پر خطرناک حد تک منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جن میں منشیات کے استعمال، چوری اور دیگر جرائم میں ملوث ہونے کا رجحان بڑھا ہے، شہر میں جرائم میں اضافے کا ایک منفی اثر خواتین کے روزگار اور دیگر شہری سرگرمیوں میں کمی کی صورت میں بھی ہوا ہے۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری