کیا زمانے میں یہی پنپنے کی باتیں ہیں


کیا زمانے میں یہی پنپنے کی باتیں ہیں

آج شاعر مشرق حضرت اقبالؒ کا 141 واں یوم ولادت اس عہد تجدید کیساتھ منایا جائے گا کہ ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر خود کواتحاد،یکجہتی اور اتفاق کی ایسی بے مثال لڑی کا حصہ بنائے رکھیں گے جس پر فخر وانبساط کے کئی مینار تعمیر کئے جاسکتے ہیں۔

تحریر: تصدق اے راجہ

 معروف سماجی شخصیت اور ممتاز کالم نگار

کیا زمانے میں یہی پنپنے کی باتیں ہیں

عالم اسلام کو دیکھیں کس طرح سامراج نے امت مسلمہ کی طاقت کو’’یرغمال‘‘بنایا ہوا ہے بیشتر مسلمان ریاستیں اپنے وسائل سے غیروں کے مفاد کا تحفظ کررہی ہیں۔کئی مسلم ممالک ایک دوسرے کے خلاف باقاعدہ صف آراء ہیں۔حیرت ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے اب روس کوشش کررہا ہے، یہ وہی ہے جس نے افغانستان کی ’’فتح‘‘کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا_

ساقی نہ کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں

حضرت اقبالؒ جس قوم کو بیدار کرنے کے لیے شبانہ روز جدوجہد کرتے رہے آج بڑوں کو اس پیغام کولے کر میدان عمل میں نکلنا پڑے گا یہ آج ضرورت بھی اور وقت کا تقاضا بھی ہے اور امت کی بقاکا مسئلہ بھی_

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیریؓ

علامہ اقبال ؒنے مسلمانوں کو مخاطب ہو کر کہا کہ اے مسلمانو!نہ آپ کی پہچان کسی ملک کی وجہ سے ہے نہ رنگ و نسل کی وجہ سے آپ جانے جاتے ہیں۔رنگ،نسل،قوم،ملک کچھ نہیں ہوتا ۔صرف مسلمان اور اسلام کا تصور ہے۔یا د کرو اس وقت کو جب غلام آزاد ہو کر اعلیٰ مرتبہ و مقام پر پہنچ گئے ۔سب کے کھانے،پینے،رہنے اورترقی و خوشحالی ،علم و فن کے برابری کے حقوق تھے۔رنگ،نسل،امیری، غریبی،گورے کالے کا فرق ختم ہوا اور ایک خدا کے سامنے ایک صف میں کھڑے ہو کرعبادت کرتے ہوئے متقی پرہیزگاربن گئے اور دوسروں کے حقوق پورے کرنے کے لے مر مٹنے لگے_

غلامی میں نہ کام آتی ہیں،شمشیریں نہ تدبیریں

جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

جھوٹ، فراڈ ،بے ایمانی ،ناانصافی کرتے ہوئے انسان محکومی،محرومی،مجبوری،غلامی میں چلا جاتا ہے۔مگر جب انسان سچائی،ایمانداری ،انصاف کرتے ہوئے انتھک محنت سے علم و فن حاصل کرتا ہے تو انسان بلندی،پاکیزگی،عزت،احترام سے حاکمیت کی طرف جانے سب کو جنت کی طرف لے جاتے ہیں۔غلام میں نہ اپنی پہچان رہی، نہ خوبیاں، نہ حالات بہتر رہے۔ہم دوسروں میں خوبیاں تلاش کرتے رہے۔

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

زندگی شمع کی صورت ہو خدا یا میری

جب قوم کی بگڑی حالت علامہ اقبال نے دیکھی تو عاجزی انکساری سے دعا فرمائی!اے اللہ،اپنی ذاتِ پاک کی برکت سے ہماری حالت تبدیل فرما دے۔ہم میںاچھائی،بھلائی،پیار،محبت،اخلاق،اتفاق،ہمت ،جرات۔علم و عقل و شعور دے تاکہ ہم انسانیت کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے سب کو ارفع مقام تک لے جائیں_

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں

نظر آجاتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں

علامہ اقبال صاحب فرماتے ہیں،جب جوان مسلمان کی روح ،عقل ،شعور،فہم و فراست سمجھ،سوچ ،غور و فکرکرتی ہے تو پھر وہ ذلت کی دلدل میں نہیں رہتی۔اچھائی کی بلندیوں پر پہنچنے کی پوری پوری کوشیش کرتے ہوئے کمزور کو بھی بہتری کی طرف لے جاتی ہے مگر جوانی کو بنانے کے لئے پہلے پانچ سال بچوں کی تعلیم اسلامی اصولوں پر دی جاتی ہے تو پھرسے انسان خودمختاری سے خوداری سے عزت و وقار کی پرسکون زندگی گزارتا ۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے ،بتا تیری رضا کیا ہے

علامہ اقبال فرماتے ہیں جب انسان اسوہ حسنہ سنہری پر چلتے ہوئے دوسروں کا حق ادا کرتا ہے پھر اپنا حق طلب کرے تو اس کا مزا ہی کچھ اور ہے_

تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا

تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں

شاعر ِ مشرق مسلمانوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اے نیک شریف مومن آپ نے پرندے کی طرح مخالف سمت ،موسم،اب و ہوا کی پروا کیے بغیرتیز ترین دھوپ اور شدید سرد ہواوں میں جس طرح پرندے اپنا رزق تلاش کرتے ہیںان کی نقل کرتے ہوئے آپ بھی انتھک محنت سے رزق حاصل کریںاور تلاش جاری رکھنی ہے۔ حضرت اقبال ؒنے مسلمان نوجوانوں کو یاد دلایا کہ حرص و لالچ نے انسان کو انسانیت بہت دور کر دی ہے جس کی وجہ سے ہمدردی ایک دوسرے سے پیار محبت اتفاق اتحاد کم ہو گیا ہے۔صبر قناعت،عاجزی ،انکساری سے مل جل کر بلند اخلاق سے زندگی گزارنے کا سلیقہ آتا ہے اور پھرعظمت سکون،آرام، ترقی اور خوشحالی کا دورہے۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری