حضور(ص) کی شانِ رحمت اور دورِ جدید


حضور(ص) کی شانِ رحمت اور دورِ جدید

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کے لاتعداد گوشے ہیں جن کا احاطہ انسانی عقل نہیں کر سکتی۔ اس رحمت کا دائرہ کار صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ تمام عالمین کو محیط ہے۔

ترتیب اور تدوین :  محمد یوسف 

عالم انسانیت، عالم جنات، عالم نباتات، عالم حیوانات، عالم جمادات الغرض ہر عالَم جو ہمارے علم میں ہے اور جو ہمارے علم میں نہیں ہے، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کاملہ ہی سے فیض پارہا ہے اور آپ ہی کے صدقے قائم و دائم ہے۔

دورِ جدید میں جہاں ہر طرف سائنس و ٹیکنالوجی کی ایجادات کی بھرمار ہے، یہ بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ رحمت ہی کی بدولت آج انسانیت کے لئے سہولیات و آسائشات فراہم کرنے کے قابل ہے اس لئے کہ آج عالم انسانیت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے رکھی گئی تعلیمی و علمی بنیادوں پر اپنی کامیابیوں کی عمارات قائم کئے ہوئے ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے قبل پوری دنیا جہالت میں ڈوبی ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہالت سے بھری دنیا میں جدید علم اور سائنسی تحقیقات کا دروازہ کھولا۔ لہذا یہ بات قطعی ہے کہ آج انسانیت سائنسی ترقی کے جس مقام پر پہنچی ہے اُس کا دروازہ کھولنے والے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ گویا دنیا کو آج علم کی روشنی اور سائنسی تحقیقات کے ذریعے مختلف ایجادات بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت سے ملی ہیں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اُمّی (ان پڑھ) قوم میں علم کی بنیاد رکھی۔ اس سوسائٹی کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا اور وہاں تعلیم کو ایک نظام کی صورت میں باقاعدہ رواج دیا جہاں علم کا کلچر نہیں تھا۔

آج جب ہم علم کی بات سنتے ہیں تو اس میں ہمارے لیے کوئی تعجب نہیں ہے، اس لئے کہ ہم ایک تعلیم یافتہ معاشرے میں ہیں، جہاں ہر طرف علم اور سائنس کا کلچر ہے۔ آج سے چودہ سو سال پیچھے چلے جائیں تو وہاں عالم یہ تھا کہ لوگ پانی پینے پلانے پر قتل کرتے، صدیوں تک جنگیں چلتی رہتیں، بچی پیدا ہوتی تو اُسے زندہ درگور کر دیتے۔ عورتوں، غلاموں، غریبوں اور کمزوروں کے کوئی حقوق نہیں تھے۔ قبائلی جنگیں تھیں۔ معاشرے میں کوئی نظام نہیں تھا۔ امن و امان نہیں تھا۔ دہشتگردی، قتل و غارت گری اور خون خرابہ عام تھا۔ اس معاشرے میں لکھنا پڑھنا کوئی نہیں جانتا تھا۔

امام بلاذری نے فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ مکہ جیسے شہر میں صرف 15 آدمی ایسے تھے جو لکھنا جانتے تھے۔ گویا ان حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت علم کا دروازہ کھولا کہ جب کوئی علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف حصول تعلیم کی طرف متوجہ کیا بلکہ صاحبانِ علم کی فضیلت و انفرادیت کو بھی مختلف مقامات پر بیان فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِیَاءِ.

’’صاحبانِ علم انبیاء کے وارث ہوتے ہیں‘‘

عرفِ عام میں جب ہم لفظ ’’علماء‘‘ سنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں مساجد کے ائمہ، خطباء، علامہ صاحبان اور شیوخ کا image ابھرتا ہے جبکہ عربی میں ’’علماء‘‘ سے مراد صاحبانِ علم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم کے کلچر کو اتنا فروغ دیا کہ فرمایا:

أُطْلُبُوْا الْعِلْمَ وَلَوْ کَانَ بِالصِّیْنِ.

’’علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین کیوں نہ جانا پڑے‘‘

 

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری