امریکا فلسطینیوں کے حقوق کا دشمن


مسئلہ فلسطین کی ستر سالہ تاریخ کا ذکر کیا جاتا ہے کیونکہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا وجود سنہ1948ء میں قائم ہوا جس کی پشت پناہی سنہ1917ء میں برطانوی سامراج نے اعلان بالفور نامی خط کے ذریعے کی تھی تاہم یہ کہنا درست ہو گا کہ فلسطینی عربوں کے ساتھ ہونے والی اس خیانت کو ایک سو سال یعنی ایک صدی بیت چکی ہے اور فلسطینی عوام تاحال اپنے حقوق کی جد وجہد کر رہے ہیں اور مسلسل غاسب صہیونی ریاست اسرائیل فلسطینیوں کے حقوق کی پائمالی کی مرتکب ہو رہی ہے ۔

تسنیم خبررساں ادارہ:
درا صل دیکھا جائے تو روز اول سے ہی فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی میں استعماری قوتوں کا باقاعدہ کردار رہاہے جہاں ایک طرف برطانوی سامراج نے فلسطین سے اپنی کفالت کو ختم کرنے سے قبل صہیونیوں کو فلسطین میں آباد کیا اور بعد میں یہاں ایک غاصب جعلی ریاست بنام اسرائیل قائم کی وہاں امریکہ جیسی شیطان استعماری طاقت بھی برطانوی سامراج کی جرائم میں کسی طور پیچھے نہ رہی اور دنیا میں سب سے پہلے جعلی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے اور دیگر یورپی ممالک پر دباؤ ڈال کر اسرائیل کی پشت پناہی کروانے کے لئے اپنا کردار ادا کیا اور تاحال ایک سو سالوں سے امریکی سیاست کا مرکز و محور صہیونیزم کے دفاع اور اس کی بقاء پر استوار ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ امریکی عوام ہمیشہ سے حکومت کی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے آئے ہیں کہ آخر امریکی عوام کے ٹیکسز کا پیسہ صہیونیوں کو کیوں دیا جا رہاہے اور اس پیسہ سے بالآخر صہیونی فلسطین میں عربوں کا قتل عام صرف اور صرف نسل پرستی کی بنیاد پر کر رہے ہیں.

واضح رہے کہ فلسطینی عرب کی جب بات ہوتی ہے تو ا س سے مراد فلسطینی قومیت کے حامل وہ تمام فلسطینی مسلمان، عیسائی اور یہودی سمیت دیگر چھوٹے مذاہب کے لوگ شامل ہیں کہ جو فلسطین کے باسی تھے اور ہیں اور جنہوں نے ہمیشہ سے فلسطین پر قائم ہونے والی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کو یہودیوں کی ریاست تسلیم نہیں کیا۔

اس حوالے سے خود امریکہ میں دسیوں ہزار یہودی اور ان کی تنظیم نووی کارٹا موجو دہے کہ جس کا نعرہ آزادی فلسطینی ریاست ہے اور ایسی فلسطینی ریاست کہ جس کا دارلحکومت یروشلم یعنی بیت المقدس ہے۔
جہاں تک امریکہ کی فلسطینیوں کے حقوق کو پامال کرنے کی بات ہے تو دنیا بہت اچھی طرح سے واقف ہے کہ امریکہ کی جانب سے فلسطین میں قائم جعلی ریاست اسرائیل کے لئے امداد کے نام پر اربوں ڈالرز جاری کئے جاتے ہیں اور اس رقم کے علاوہ اسرائیل کو امریکی ساختہ جدید اسلحہ اور بھارتی جنگی سازو سامان کے ساتھ ساتھ جدید جنگی ٹیکنالوجی بھی فراہم کی جاتی ہے جس کا استعمال غاصب صہیونی ریاست مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کے خلاف کرتی ہے اور نہ صرف فلسطینیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ خطے میں موجود دیگر عرب ریاستیں بھی صہیونی ریاست کے ناپاک عزائم اور جنگی شر انگیزیوں سے محفوظ نہیں رہتے ہیں .

اس کی چند ایک مثالیں شام، لبنان، اردن اور مصر جیسے ممالک ہیں کہ جن کی پہلے ہی کچھ زمینیں غاصب صہیونی ریاست اپنے تسلط میں لے چکی ہے اور اس کے علاوہ لبنان پر جنگیں مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ شام کی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور مختلف علاقوں میں بمباری کرتی رہی ہے۔
امریکہ کی اسرائیل کی دی جانے والی مسلح امداد سے ہمیشہ فلسطینیوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام ہوتا رہاہے۔ سنہ1982ء میں جب صہیونیوں نے لبنان میں فوجی اتاریں تو صابرا اور شاتیلا کے کیمپوں میں انسانیت کا قتل عام صہیونی درندوں کے ہاتھوں امریکی اسلحہ سے کیا گیا جس پر نہ تو امریکہ کے ایوانوں میں انسانی حقوق کی دفاع کا شور و غل سننے میں آیا اور نہ ہی کسی اور مغربی ملک نے فلسطینیوں کے اس بہیمانہ قتل عام پر انسانی حقوق کے بارے میں واویلا کیا ۔لیکن جب بات امریکی مفادات کے بر خلاف ہو رہی ہو تو امریکہ کو ہر دوسرے ملک میں انسانی حقوق کی پامالی ہوتی نظر�آتی ہے لیکن امریکہ کو کبھی یہ نظر نہیں آتا ہے کہ امریکی امداد کے نام پر اسرائیل جیسی جعلی صہیونی ریاست کو دیا جانے والا بھاری اسلحہ اور جنگی ساز و سامان غز ہ میں محصور مظلوم اور نہتے فلسطینی عربوں کیخلاف استعمال کیا جا رہاہے۔

امریکی سرکار کو کبھی یہ نظر نہیں آتا ہے کہ فلسطین میں بسنے والے فلسطینی عرب انسان ہیں بلکہ شاید استعماری قوتوں کے نزدیک فلسطینیوں کو انسان قرار ہی نہیں دیا جاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے حقوق کے بارے میں بات کرتے وقت امریکہ سمیت تمام استعماری قوتیں گونگی اور بہری ہو جاتی ہیں اور جبکہ فلسطینیوں کی جانب سے اپنے دفاع میں اگر ایک پتھر بھی غاصب صہیونی فوجیوں کی طرف پھینکا جائے تو دنیا میں سب سے بڑی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار پاتا ہے ، اسی طرح اگر ایک نوجوان فلسطینی لڑکی اپنے گھروں اور اپنے لوگوں کے دفاع کی خاطر صہیونی فوجی کو تھپڑ مار دے تو یہ دنیا کے تمام قوانین کی توہین قرار پاتی ہے اور اس جرم میں اس  نوجوان لڑکی کو کئی ماہ صہیونیوں کی جیل میں قید رہ کر مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن یہاں امریکہ کی جانب سے انسانی حقوق کے لئے کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔
ان تمام باتوں سے بالا تر امریکہ نے دنیا بھر میں اسرائیل کی دہشت گردی کو فروغ دینے کے لئے نت نئے ناموں سے دہشت گرد گروہ قائم کئے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ایسی حکومتوں کو مدد و تعاون فراہم کیا ہے جو ان دہشت گردوں کی طرح کام انجام دیں، اس حوالے سے داعش، النصرۃ، القاعدہ ، طالبان سمیت نہ جانے کئی ایک نام موجود ہیں کہ جنہوں نے پاکستان سمیت افغانستان، عراق، ایران، لبنان ، لیبیا اور دیگر مقامات پر امریکی و صہیونی مفادات کے خاطر قتل عام کیا اور دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دی ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ امریکہ نے جہاں فلسطینیوں کا قتل عام کرنے میں صہیونی جعلی ریاست اسرائیل کی سرپرستی کی ہے اسی طرح اب ایک مرتبہ پھر امریکہ نے اپنا سفارتخانہ القدس شہر میں منتقل کر کے نہ صرف فلسطینیوں کے حقوق پامال کئے ہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دی ہیں، اسی طرح فلسطینیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا ایک نیا راستہ جو امریکہ نے اختیار کیا ہے وہ مسئلہ فلسطین سے متعلق نام نہاد راہ حل ہے کہ جسے ’’صدی کی ڈیل‘‘ کا نام دیا ہے جس کا لب لباب کچھ اس طرح سے ہے کہ فلسطینیوں کو فلسطین سے نکال دو اور صہیونیوں کو پورا فلسطین دے دو۔

اب اس کام کے لئے امریکہ دنیا کے تمام تر قوانین اور انسانی حقوق کی اقداروں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فلسطینیوں کو ان کے وطن سے مکمل طورپر نکالنے پر تلا ہو اہے اور اس کام کے لئے عرب ممالک کی ملوکیت کو رام کر لیا گیا ہے تاہم فلسطینیوں نے اس ڈیل کے خلاف بھرپور مزاحمت کرنے کا اراد ہ کر رکھا ہے اور کسی صورت بھی فلسطین سے بے دخلی کو قبول نہ کرنے کا عزم کر رکھا ہے جس کا ایک نمونہ ہمیں گذشتہ دنوں غزہ میں ہونے والے اسرائیلی حملوں او ر جنگ کے نتیجہ میں دیکھنے کو ملا ہے کہ جہاں فلسطینیوں نے پائیدار مزاحمت کے نتیجہ میں اسرائیل کو دو روز میں ہی پسپائی پر مجبور کر دیا تھا۔بہر حال امریکہ فلسطینی تاریخ میں فلسطینیوں کے حقوق کا ایک سو سال سے دشمن اور حقوق کو پامال کرنے والی ایک شیطان قوت کے طور پر سامنے آیا ہے جسے یقیناًآئندہ تاریخ میں نسلیں اسی عنوان سے ہی یاد رکھیں گی کہ امریکہ فلسطینیوں کے حقوق کا دشمن ہے۔

تحریر:  صابر ابو مریم 
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان