بنگلہ دیش میں پولنگ کے دوران پُرتشدد واقعات، متعدد افراد جاں بحق


بنگلہ دیش میں پولنگ کے دوران پُرتشدد واقعات، متعدد افراد جاں بحق

بنگلہ دیش میں گیارہویں عام انتخابات میں پولنگ کے دوران مختلف پر تشدد واقعات میں 15 افراد ہلاک ہوگئے۔

تسنیم خبررساں ادارے نے غیرملکی ذرائع کے حوالےسے بتایا ہے کہ بنگلہ دیش میں آج 30 دسمبر کو ہونے والے انتخابات کو موجودہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی طاقتور حکمرانی کی وجہ سے ایک ریفرنڈم قرار دیا جارہا ہے جس میں تیسری مدت کے لیے شیخ حسینہ واجد کے منتخب ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔

مقامی و غیر ملکی میڈیا کے مطابق ووٹنگ شروع ہونے کے بعد سے ووٹنگ ختم ہونے تک ملک کے 6 اضلاع میں اپوزیشن اور حکمراں جماعتوں کے درمیان تصادم میں 15 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ پولیس نے اس حوالے سے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔

بنگلہ دیش کے انتخابات میں 10 کروڑ 40 لاکھ افراد ووٹ دینے کے اہل ہیں جن میں سے اکثر نوجوانوں نے پہلی مرتبہ حق رائے دہی کا استعمال کیا۔

خیال رہے کہ شیخ حسینہ واجد کی حریف بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ اور اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیا کو بدعنوانی کے الزامات میں قید کی سزا کے بعد نااہل قرار دیا گیا تھا۔

دوسری جانب خالدہ ضیا کی غیر موجودگی میں اپوزیشن جماعتوں نے 82 سالہ کمال حسین کی سربراہی میں اتحاد تشکیل دیا ہے، کمال حسین نے آکسفورڈ سے وکالت کی تعلیم حاصل کی اور وہ شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کے سابق رکن بھی ہیں ۔

بنگلہ دیش کے چیف الیکشن کمشنر کے ایم نور الہدیٰ نے بتایا کہ ’ کچھ حادثات پیش آئے ہیں، ہم نے حکام سے معاملات حل کرنے کا کہا ہے ‘۔

بنگلہ دیش بھر میں قائم 40 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشن 4 بجے بند ہوگئے جس کے بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل شروع ہوگیا تھا۔

حسینہ واجد کو انتخابات میں اپنی کامیابی پر یقین ہے اور انہوں نے پیر کو غیر ملکی صحافیوں اور انتخابی مبصرین کو بھی اپنی رہائش گاہ پر مدعو کیا ہے۔

بنگلہ دیش میں گیارہویں عام انتخابات کے موقع پر 6 لاکھ سیکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے جن میں فوج اور پیرا ملٹری فورسز کے اہلکار بھی شامل تھے۔

پولنگ کے دوران ممکنہ احتجاج کو روکنے کے لیے بنگلہ دیش میں موبائل اور انٹرنیٹ سروسز بھی معطل رہیں۔

خیال رہے کہ چند روز قبل بنگلہ دیش کی اپوزیشن جماعتوں کی نے انتخابات کے پیشِ نظر پولیس نے حزبِ اختلاف کی جماعتوں سے تعلق رکھنےوالے ساڑھے 10 ہزار سے زائد کارکنان کو حراست میں لیے جانے کا الزام عائد کیا تھا۔

علاوہ ازیں انتخابی مہم میں مختلف تصادم میں ایک درجن سے زائد افراد ہلاک بھی ہوئے جبکہ انتخابات سے چند روز قبل نواب گنج میں صحافیوں پر بھی نامعلوم افراد نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں 10 صحافی زخمی ہوگئے تھے۔

خیال رہے کہ حسینہ واجد نے انتخابی مہم کے دوران ملکی معاملات چلانے کے لیے نگراں حکومت کی اجازت دینے سے بھی انکار کردیا تھا۔

حکمراں جماعت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے 2014 کی تاریخ دہرانے سے اجتناب کیا جارہا ہے جب خالدہ ضیا اور ان کی جماعت نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور ووٹر ٹرن آؤٹ 22 فیصد رہا تھا۔

مزید برآں پارلیمنٹ کی 3 سو نشستوں میں سے نصف سے زائد پر مقابلہ نہیں ہوا تھا جبکہ عوامی لیگ کی فتح پر ہونے والے فسادات کے نتیجے میں 22 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

واضح رہے کہ 1990 سے لے کر اب تک بنگلہ دیش میں حسینہ واجد یا خالدہ ضیا نے اپنی حکومتیں قائم کی ہیں اور یہ دونوں طاقتور خواتین ایک وقت میں قریبی اتحادی رہنے کے بعد اب ایک دوسرے کی خطرناک سیاسی دشمن بن چکی ہیں۔

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری