افغانستان میں صدارتی انتخابات 3 ماہ کیلئے ملتوی کرنے کا فیصلہ


افغانستان میں صدارتی انتخابات 3 ماہ کیلئے ملتوی کرنے کا فیصلہ

افغان حکومت نے صدارتی الیکشن 20 جولائی تک ملتوی کرنے کا اعلان کیا ہے۔

تسنیم خبررساں ادارے کے مطابق، طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے بعد افغانستان کے صدارتی الیکشن 20 جولائی تک ملتوی کرنے کا اعلان کیا گیاہے۔

واضح رہے کہ  گزشتہ کئی ہفتوں سے قیاس آرائیاں جاری تھیں افغانستان میں امن مذاکرات کے مواقع کو توسیع دینے کے لیے انتخابات ملتوی کیے جاسکتے ہیں جس کے بعد آزاد الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب 3 ماہ کے لیے ملتوی کردیے۔

خیال رہے کہ افغان صدارتی انتخابات کے لیے20 اپریل کی تاریخ مقرر کی گئی تھی جسے مبصرین نے غیر حقیقی قرار دیا تھا کیوں کہ آئی ای سی کو ا ب تک اکتوبر میں ہونے والے پر تشدد انتخابات کے نتائج کو حتمی شکل دینی ہے۔

اس حوالے سے افغان الیکشن کمیشن کے سربراہ عبدالبادی سید نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ صوبائی اور ضلعی کونسلوں اور اس سے قبل صوبہ غزنی میں ملتوی ہونے والے پارلیمانی انتخاب بھی اسی روز منعقد کیے جائیں گے۔

اس حوالے سے صدر اشرف غنی،جو دوسری مرتبہ الیکشن لڑنے کے خواہشمند ہیں، کے ترجمان نے نئی تاریخ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ افغان حکومت الیکشن کمیشن کے فیصلے کا احترام کرتی ہے اور جولائی میں ہونے والے الیکشن کے لیے کمیشن کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں۔

سرکاری طور پر انتخابات میں التوا کی وجہ اپریل میں افغانستان میں شدید سرد موسم اور 4 علیحدہ انتخابات کے انعقاد کے لیے درپیش اخراجات اور مختلف پولنگ اسٹیشنز پر سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کو قرار دیا گیا۔

اس کےساتھ انتخابات کا انعقاد کرنے والوں کو عملے کی بھرتی کرنے، انہیں بائیو میٹرک مشینوں کے استعمال کی تربیت فراہم کرنے کےلیے، اور اس ضمن میں دیگر مسائل کو حل کرنے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

عبدالبادی سید کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ انتخابات سے حاصل ہونے والے سبق کی بنیاد اور اصلاحات متعارف کروانے کے لیے وقت کی اجازت کے سلسلے میں ہمیں انتخابات کی گزشتہ تاریخ پر نظرِ ثانی کرنی پڑی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ چاروں الیکشن کے انعقاد کے لیے نئی تاریخ کا فیصلہ سیاسی رہنماؤں، سیکیورٹی ایجنسیز اورسرکاری اداروں کے ساتھ ہونےوالے غیر معمولی مذاکرات کے بعد کیا گیا۔

دوسری جانب بہت سے افغان شہریوں کو خدشہ ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد اشرف غنی کی حکومت زمین بوس ہوسکتی ہے اور طالبان دوبارہ طاقت حاصل کرسکتے ہیں جو دوبارہ بھرپور خانہ جنگی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔

 

ایک جانب یہ خدشات بھی سراٹھا رہے ہیں کہ اب نئی تاریخ کے مطابق صدارتی انتخابات طالبان کے روایتی لڑائی کے موسم میں ہوں گے جس سے پرتشدد واقعات کی لہر اٹھ سکتی ہے اور عسکریت پسند ووٹ میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔

 

 

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری