امریکی امداد کی کٹوتی سے فلسطینی متاثر، امن کی امیدیں مزید معدوم ہونے لگیں


امریکی امداد کی کٹوتی سے فلسطینی متاثر، امن کی امیدیں مزید معدوم ہونے لگیں

ہزاروں فلسطینی اب امریکا سے خوراک کی امداد یا بنیادی صحت کی سہولیات مزید حاصل نہیں کرسکیں گے، ساتھ ہی امریکی امداد سے چلنے والے انفرااسٹرکچر منصوبوں کو بھی روک دیا گیا جبکہ یروشلم میں امن کے قیام کے لیے ہونے والے پروگرام کی سرگرمیاں بھی مزید جاری نہیں رہیں گی۔

تسنیم خبررساں ادارےنے ڈان کے حوالے سے بتایا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے گزشتہ برس فلسطینیوں کے لیے 20 کروڑ ڈالر سے زائد کی ترقیاتی امداد کم کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس نے این جی اوز کو اپنا پروگرام بند کرنے اور اسٹاف کو کم کرنے پر مجبور کردیا۔

واضح رہے کہ امریکی حکومت کی ڈیوپلمنٹ ایجنسی یو ایس ایڈ نے 1994 سے انفرااسٹرکچر، صحت، تعلیم، گورننس اور انسانی امداد کے پروگرامز کے لیے فلسطینیوں کو ساڑھے 5 ارب ڈالر سے زائد کی امداد فراہم کی ہے۔

اس امداد کو زیادہ تر بین الاقوامی این جی اوز کے ذریعے فراہم کیا جاتا تھا اور گزشتہ موسم گرما میں اس میں کٹوتی کے بارے میں اچانک آگاہ کیا گیا تھا، جس نے انہیں اپنے پروگرام کو برقرار رکھنے کے لیے پریشان کردیا تھا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یو ایس ایڈ میں کٹوتی کا مقصد فلسطینیوں پر دباؤ ڈال کر دوبارہ امن مذاکرات کی طرف لانا ہے لیکن فلسطینی حکام کہتے ہیں کہ امریکا کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد یہ اقدام تعلقات مزید تلخ کردے گا۔

دوسری جانب زیادہ امدادی گروپس جن کا فلسطینی انتظامیہ سے کوئی رابطہ بھی نہیں ہیں وہ کہتے ہیں امداد میں کٹوتی سب سے زیادہ کمزور فلسطینیوں اور ان لوگوں جو اسرائیل کے ساتھ امن چاہتے ہیں، انہیں متاثر کرے گی۔

اس حوالے سے 1995 میں فلسطینی علاقوں میں کام کرنے والی بین الاقوامی این جی گلوبل کمیونیٹرز کی مقامی ڈائریکٹر لانا ابو حجلہ کا کہنا تھا کہ اگر آپ امن عمل کے خیال کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو ایسے لوگوں کو برقرار رکھنا ہوگا جو امن عمل کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔

 

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری