انسانی سمگلنگ دنیا کے تیسرے بڑے جرم کی شکل اختیارکرچکی ہے، انسانی حقوق کمیشن


انسانی سمگلنگ دنیا کے تیسرے بڑے جرم کی شکل اختیارکرچکی ہے، انسانی حقوق کمیشن

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے سالانہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں اس سنگین جرم کا ارتکاب ہورہا ہے انسانی سمگلنگ کے متاثرین بڑی تعداد میں ہیں۔

تسنیم خبررساں ادارے کے مطابق، کمیشن نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیاہے کہ نہ صرف ملازمت کے لئے دوسرے ممالک بھجوانے کے لئے انسانی سمگلنگ کی جاتی ہے بلکہ اوربھی کئی مقاصد کیلئے انسانی سمگلنگ ہو رہی ہے، انسانی سمگلنگ سے شخصی آزادی، صحت ، انسانی تشخص متاثر ہورہا ہے جبکہ ان افراد کو تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

کمیشن نے کہا ہے کہ سمگل شدہ بچوں کے حقوق سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ، ان کی کم عمری میں شادیاں کی جاتی ہیں، تعلیم وصحت کا حق بھی نہیں مل پاتا، اپنی رپورٹ میں انسانی حقوق کمیشن نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں اندرون ملک بھی انسانی سمگلنگ ہوتی ہے، صوبہ پنجاب اورسندھ میں اندرونی سمگلنگ جبری مشقت کیلئے کی جاتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اینٹوں کے بھٹوں پر مزدوری، قالین سازی، زراعت، ماہی گیری، کان کنی، چمڑے کے کاروبار اور چوڑیاں بنانے کے کاموں میں جبری مشقت لی جاتی ہے ان شعبوں میں جبری مشقت کے متاثرین کی تعداد10لاکھ سے زائد ہے جن میں مرد، خواتین اور بچے شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق گھریلو ملازمت کے لئے بھی اندرون ملک انسانی سمگلنگ ہوتی ہے، غریب خاندانوں کے بچوں کوگھروں میں کام کیلئے فروخت کیا جاتا ہے، بھیک مانگنے کیلئے بھی بچوں کواستحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بھیک مانگنے والے مافیاز لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے معذور بچوں کااستعمال کرتے ہیں۔

کمیشن نے رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں جبری شادیاں ہرجگہ ہوتی ہیں تاہم بلوچ اور پشتون بچیوں کی شادیاں ان کی مرضی معلوم کئے بغیر کی جاتی ہیں جبکہ خواجہ سرائوں کا گرو چیلا نظام بھی غلام رکھنے کی ایک قسم ہے جہاں گرواپنے چیلے مالی فوائد کیلئے فروخت کردیتے ہیں، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سسٹم چائلڈ سولجرینگ کے تحت بھی انسانی سمگلنگ ہوتی ہے جس میں والدین بچے فروخت کردیتے ہیں یا غیر ریاستی عناصر کی طرف سے اغواکرکے سمگلنگ ہوتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق افغان جنگ کے دوران ملک میں غربت کی زندگی گزارنے والے بہت سے بچے گھروں سے فرار ہوگئے تھے یہ بچے بطور پناہ گزین اغوا کرلئے گئے اوربعد میں مڈل مین نے انہیں فروخت کردیا۔

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے انسانی سمگلنگ روکنے کیلئے حکومت کو `10سفارشات کی ہیں ان سفارشات میں کہا گیا ہے کہ انسانی سمگلنگ روکنے کیلئے مروجہ قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرواتے ہوئے غیر قانونی امیگریشن کو روکنا ہوگا اور اس ضمن میں ایک مفصل قانو ن بنانے کی بھی ضرورت ہے ، جس کے ذریعے پرتشددمعاشرتی روایات اور قبائلی وجاگیردارانہ روایات کو روکاجائے۔

کمیشن نے سفارش کی ہے کہ قانون میں ترمیم کے ذریعے ایف آئی اے کوملک کے اندر ہونے والی انسانی سمگلنگ روکنے کا اختیار دیا جائے، کمیشن نے سفارش کی ہے کہ ایف آئی اے کے ذیلی دفاتر ایران، ترکی ، یونان، اٹلی ، برطانیہ، دبئی ، لیبیا، جنوبی افریقہ ، مشرق وسطی کی ریاستوں اور ممالک میں قائم کئے جائیں کیونکہ پاکستان سے انسانی سمگلنگ کے ذریعے لوگوں کو ان ممالک میں لے جایا جاتا ہے۔

کمیشن نے ملک کی ایجنسیوں کے مابین تعاون کو فروغ دینے اور ایف آئی اے کے ذریعے ملک بھرکی مقامی زبانوں میں ان علاقوں میں آگاہی مہم چلانے کی سفارش کی ہے جو انسانی سمگلنگ سے زیادہ متاثر ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن نے پاک ایران، پاک افغان سرحدوں پر چیک پوسٹوں کی تعداد میں اضافے کی سفارش کی ہے کیونکہ موجودہ چیک پوسٹیں انتہائی محدود اور کم استطاعت کار کی حامل ہیں ، کمیشن نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین تعاون کی حکمت عملی بنانے ، متاثرین کی قانون ومالی معاونت اور متاثرین کی بحالی کے میکانزم بنانے کی سفارش کی ہے

۔ کمیشن نے سفارش کی ہے کہ حکومت انسانی سمگلنگ سے متعلق ڈیٹا اکٹھا کرے جبکہ اندرونی و بیرونی انسانی سمگلنگ میں ملوث لوگوں کے خلاف سخت کاروائی کرکے کیفرکردار تک پہنچائے۔

کمیشن نے انسانی سمگلنگ روکنے کیلئے پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کی استعدادکار بڑھانے کی بھی سفارش کی ہے ، رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ریلوے انسانی سمگلنگ کے لئے استعمال ہونے والاایک عام ذریعہ ہے اس لئے ریلوے پولیس کو اس حوالے سے ہوشیار و خبردارکرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ متاثرین کی شناخت کرسکیں۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری