تہران میں پاکستان کا ثقافتی میلہ اور عمران خان کا دورہ ایران


تہران میں پاکستان کا ثقافتی میلہ اور عمران خان کا دورہ ایران

گزشتہ روز ایران کے دارلحکومت تہران کے ایک کافی مہنگے لیکن عوامی مرکز میلاد ٹاور میں یوم پاکستان اور ثقافتی شوکی مناسبت سے ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں پاکستان کی نئی سفیر محترمہ رفعت مسعود کی دعوت پرتہران میں تعینات مختلف ممالک کے سفراء اور سفارتکاروں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔

    تحریر:  ڈاکٹر راشد نقوی

    تسنیم خبررساں ادارہ:  ایران کے وزیر صنعت و تجارت رضا رحمانی سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ایرانیوں کی ایک معقول تعداد نے شرکت کی۔

        اصل موضوع پر آنے سے پہلے ایران کی نئی سفیر محترمہ رفعت مسعود صاحبہ کو خراج تحسین پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کے آنے سے تہران میں  ایران پاکستان تعلقات کے حوالے سے ایک واضح تبدیلی محسوس ہو رہی ہے۔ محترمہ رفعت مسعود کے ساتھ گزشتہ چند ماہ میں چند ملاقاتوں او رمتعدد پروگراموں میں شرکت سے اس بات کا اندازہ ہوا ہے کہ پاکستان اور پاکستانیوں کو اہل ایران میں متعارف کرانے کی جو کوششیں گزشتہ چند ماہ میں انجام پائی ہیں شاید گزشتہ کئی برسوں میں ایسی کوششیں بروئے کار نہیں لائی گئیں۔

        محترمہ رفعت مسعود کا فارسی پرعبور اور روایتی سفارتی پروٹوکول سے انکی بےنیازی نے انہیں ایران کے کئی حلقوں میں ہردلعزیز بنا دیا ہے۔

        تہران یونیورسٹی کے پروگراموں میں وہ جسطرح ایرانی طالبات کو گلے لگا لگا کر اپنی بیٹیوں کیطرح مل رہی تھیں اور یونیورسٹی اساتذہ اور طلباء میں  جسطرح وہ گھل مل  گئی تھیں میری صحافتی اور تدریسی زندگی میں اسکی مثالیں نہ ہونے کے برابر ہیں اسی طرح انہوں نے مفکر پاکستان علامہ اقبال  اور کشمیر کے عنوان سے جسطرح پے درپے مختلف پروگرام منعقد کیے اُس سے اُن کی سفارتی، ثقافتی، علمی، سیاسی اور انتظامی صلاحیتوں کا بھر پور اظہار ہوتا ہے۔

 یوم پاکستان کی مناسبت سے میلاد ٹاور کا شاندار پروگرام بھی انکی فعالیت اور ثقافتی سرگرمیوں کا ایک اور منہ بولتا ثبوت ہے۔ اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔

        میں نے ایک یونیورسٹی  پروفیسر سے زیادہ اس پروگرام میں ایک جرنلسٹ کی حیثیت سے شرکت کی کیونکہ پاک ایران تعلقات کے حوالے سے دونوں ممالک ایک حساس دور سے گزر رہے ہیں اور اس تقریب  کی اہمیت اس لیئے بھی بڑھ گئی تھی کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان چند دنوں کے بعد پہلی بار ایران کے دورے پر آرہے ہیں۔اس تقریب میں شرکت مختلف ایرانی ، پاکستانی اور اسلامی ممالک کے سفارتی، سیاسی، ثقافتی، سماجی، تجاری، عسکری اور صحافتی شعبوں کے نمائندوں سے عمران خان کے دورہ ایران پر ہلکی پھلکی گپ شپ رہی۔

        سفارتی حلقے چاہے کسی بھی ملک کے ہوں  زو معنی اور گول مول جواب دیکر کنی کترا  کر نکل جاتے ہیں لیکن سیاسی و سماجی و صحافتی حلقے  چونکہ کہیں جواب دہ نہیں ہوتے لہذا کھل کر اظہار خیال کرتے ہیں۔

        اکثر افراد کا یہ کہنا تھا کہ عمران خان نے دورہ ایران میں دیر کر دی جس سے ایران کے اندرعمران خان کا جو تاثر بنا تھا وہ خراب ہو گیا ہے۔ ایک ریٹائرڈ ایرانی سفارتکار نے تو یہاں تک کہا کہ میاں نواز شریف  کو سعودی  لابی کا قریبی ترین فرد سمجھا جاتا تھا لیکن وہ بھی ایران سعودی تعلقات میں بظاہر ہی سہی لیکن  توازن قائم رکھنے کے لیئے ریاض کے بعد تہران کا دورہ ضرور کرتے تھے بلکہ یمن کے حساس ترین حالات میں وہ آرمی چیف راحیل شریف کو دورہ سعودی عرب کے بعد  اپنے ہمراہ ایران لیکر آئے تھے۔

        تہران میں مقیم ایک معروف پاکستانی تاجر نے اپنا رونا روتے ہوئے کہا پاکستان سے اعلی سطحی وفود آتے ہیں ہمیں بھی اکثر اوقات ان کے ساتھ میٹنگ کے لیے بلایا جاتا ہے لیکن نشستن برخاستن اور خوردن  و نوشیدن کے علاوہ کچھ نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ اب وزیراعظم عمران خان آ رہے ہیں تجارکے ساتھ خان صاحب کی بیٹھک کے لیے ہمیں بھی دعوت دی جائیگی دیکھتے ہیں عمران خان بھی پہلے والوں  کیطرح صرف باتیں کر کے چلے جاتے ہیں یا کوئی عملی اقدام بھی انجام دیتے ہیں۔ ساتھ بیٹھے ان کے ایک دوست نے لقمہ دیا اور کہا عمران خان  پٹھان ہیں اور وہ تبدیلی کی بات کرتے ہیں وہ جو کہے گا اس پر عمل کرے گا۔

        پروگرام میں شریک پولیٹکل سائنس کے ایک ریٹائرڈ  پروفیسر سے جب میں نے عمران خان کے دورے پر تبصرہ  کرنے کے لیے کہا تو انہوں نے کہا میرا نام نہ لکھ دینا لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نے پاک ایران تعلقات میں بہتری کی بہترین ٹرین کو مس کر دیا ہے۔ وہ اگر وزارت عظمی کا حلف اٹھانے کے فوری بعد یا حتی سعودی عرب کے دورے کے بعد بھی  ریاض سے تہران آجاتے تو آج پاک ایران تعلقات کی صورت حال اس طرح نہ ہوتی۔ پروفیسر صاحب نے تو یہاں تک کہا کہ مجھے موثق  ذرائع سے یہ خبر بھی ملی ہے کہ عمران خان کے حالیہ  دورہ ایران کے بارے میں ایران کے اعلی سطحی حلقوں میں اس بات پر بحث مباحثہ ہوا ہے کہ پاکستان کی مجوزہ  تاریخوں کی بجائے ایران کچھ عرصے کے بعد اپنی مرضی کی نئی  تاریخوں میں وزیراعظم پاکستان کو دورہ ایران کی دعوت دے تاکہ پاکستان کے سفارتی حلقوں کو یہ پیغام پہنچے کہ ایران عمران خان کے دورے کے لیے اتنا بے چین و بے تاب نہیں ہے۔

        پروفیسر صاحب کی بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ایک ثقافتی شخصیت  نےجو پاکستان میں ایرانی ثقافت  کے کسی ادارے میں کئی سال تک خدمات انجام دے چکی ہیں  اردو اور فارسی  کو ملاکر  ایک نئی زبان میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ  فارسی میں ایک ضرب المثل ہے " اول برادری را ثابت کن بعد ادعای ارث و میراث کن" یعنی تم پہلے اپنے آپ کو بھائی ثابت کرو پھر اسکے بعد وراثت و میراث کا مطالبہ کرو"۔

        عمران خان ایران کے دورے سے پہلے برادر ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے ایران سے اپنی برادری تو ثابت کریں اسکے بعد ایران بھی آگئے بڑھ کر پاکستان سے بڑھ کر دوستی و برادری کا ہاتھ بڑھائے گا۔

 ان کا کہنا تھا پاکستان اتنے عرصے میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو لٹکائے ہوئے ہے۔  سرحدوں پر دہشت گردوں کو کنٹرول کرنے میں سنجیدہ اقدام نہیں اٹھا رہا  اور سب سے بڑھ کر اسلام آباد میں سعودی وزیر مملکت برائے امور خارجہ عادل الجبیر کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ ایران کے خلاف ہرزہ سرائی کرے۔

اس ایرانی دوست کی جذباتی گفتگو سن کے ساتھ کھڑے ایک پاکستانی ڈاکٹر  نے ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے مزاحیہ انداز میں کہا: آغا صاحب آپ تو پاکستان میں رہے ہیں آپ سے زیادہ کون اس بات کو بہتر جانتا ہے کہ ہمارے سیاسی قیادتیں تو بدنام ہونے کے لیے ہیں وزیراعظم عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو اقتدار میں لانے والی غیر مرئی طاقتیں سب کچھ کرتی ہیں۔ان بےچاروں کا کیا قصورہے۔

        وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دورے پر ایران میں مختلف سیاسی حلقوں میں گفت وشنید اور تلخ و شیرین تبصرے دونوں ملکوں کے تعلقات اورعمران خان کے دورہ ایران کی اہمیت کو اجاگر کر رہے ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عمران خان  کا حالیہ دورہ دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک تاریخی موڑ اور تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ بن سلمان اور بن زائد کی عمران خان سے قربت کے اس دورے پر کیا اثرات مرتب ھوتے ہیں۔۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری