پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر کا 10 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور


پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر کا 10 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

لاہور کی احتساب عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور پنجاب کے صوبائی وزیر برائے جنگلات سبطین خان کو 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر قومی احتساب بیورو (نیب) کے حوالے کردیا۔

نیب ٹیم نے پی ٹی آئی کے اہم رہنما اور صوبائی وزیر سردار سبطین خان کو احتساب عدالت میں پیش کیا۔

لاہور میں احتساب عدالت کے منتظم جج جواد الحسن کے چھٹی پر ہونے کے باعث ڈیوٹی پر موجود جج وسیم اختر نے کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر علی ٹیپو نے عدالت کو بتایا کہ میسرز ارتھ ریسورسز کمپنی رجسٹرڈ نہیں تھی، اس کمپنی کا کوئی رجسٹرڈ دفتر بھی موجود نہیں تھا جبکہ پنجاب منرل ڈیولپمینٹ اتھارٹی کے ساتھ ارتھ ریسورسز کمپنی کا جوائنٹ وینچر کر دیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ سبطین خان پنجاب منرل ڈیولپمینٹ اتھارٹی کے چیئرمین بھی تھے، ملزم سبطین خان نے غیر قانونی طور پر میسرز ارتھ ریسورس کمپنی کے جوائنٹ وینچر کی منظوری دی جبکہ قانون جوائنٹ وینچر کی اجازت نہیں دیتا تھا۔

نیب کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کمپنی کا مجموعی سرمایہ 25 لاکھ تھا جس کی دستاویزات بھی جعلی تھیں جبکہ ملزم صوبائی وزیر نے میسرز ارتھ ریسورسز کمپنی کو ٹھیکہ دینے سے پہلے ٹینڈر بھی جاری نہیں کیا تھا۔

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ہائیکورٹ نے اس معاملے پر نیب کو تحقیقات کا حکم دیا، جس میں قیمتی معدنیات کا ٹھیکہ دیتے وقت تمام قوانین کو نظر انداز کیا گیا، ہائیکورٹ کی ہدایات پر تفتیش کے بعد چیئرمین نیب نے ملزم کی گرفتاری کا حکم دیا۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ملزم سے تفتیش اور شریک ملزمان کی نشاندہی کے لیے ان کا 15 روزہ جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔

بعد ازاں ملزم کے وکیل نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ وزیر برائے جنگلات سبطین خان نیب کی جانب سے گرفتار کیے جانے کے بعد وزارت سے مستعفی ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سبطین خان کو گذشتہ روز نیب نے گرفتار کیا تھا اور ان کا عہدہ تفتیش پر اثر انداز نہ ہو اس لیے سبطین خان مستعفی ہوئے، لیکن انہوں نے ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ نیب عدالت میں مکمل سچ نہیں بول رہی۔

 روزنامہ ڈان کے مطابق سبطین خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ جوائنٹ وینچر کی منظوری وزیراعلی نے دی مگر نیب نے اور کسی کو گرفتار نہیں کیا، نیب نے جو انکوائری کی اس کے حقائق بھی عدالت کو نہیں بتائے گئے، نیب کی رپورٹ کے مطابق قومی خزانے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور نیب نے یہ رپورٹ ہائی کورٹ میں جمع کروائی، جس میں کہا گیا کہ یہ نیب کا معاملہ نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ نیب کے مطابق قومی خزانے کو نقصان نہیں پہنچا اور ٹھیکہ کینسل ہوگیا، نیب نے ہائیکورٹ کو بتایا کہ کوئی جرم نہیں ہوا اس لیے انکوائری ختم کر دی گئی جبکہ انکوائری ختم ہونے کے 5 سال بعد بغیر نوٹس گذشتہ روز ان کے موکل کو گرفتار کر لیا گیا۔

ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہم نیب میں اس انکوائری میں پیش ہونے کے لیے تیاری کر رہے تھے کہ رات کے اندھیرے میں ان کے موکل کو گرفتار کرلیا گیا۔

انہوں نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ اس سمری پر دستخط کرنے والے سب افراد کو گرفتار کیا جائے اور اگر نیب نے پہلے انکوائری غلط بند کی تو اس وقت کے چیئرمین نیب کو بھی کٹہرے میں لایا جائے۔

بعد ازاں سبطین خان نے عدالت کو بتایا کہ متعلقہ وزیر کی حیثیت سے مجھے درخواست موصول ہوئی جو متعلقہ محکمے کو بھیج دی اور متعلقہ محکمے کو درخواست بھجوا کر میرا کردار ختم ہو گیا۔

انہوں نے بتایا کہ بورڈ آف ڈائریکٹر نے اس پر غور و خوص کے بعد سمری بھجوائی، جو بعد ازاں میں نے چیئرمین پی این ڈی کو بھجوائی، جو مرحلہ وار وزیراعلی کو بھجوائی گئی، جس کے بعد وزیر اعلی نے اس کی منظوری دی لیکن میں اس وقت وزیر نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ انکوائری میں تمام افسران کو بلایا گیا مگر مجھے نہیں بلایا گیا، شہباز شریف نے 9 سال تک معاملہ دبائے رکھا اور پھر مقدمہ کروا دیا۔

سبطین خان نے دعویٰ کیا کہ ان کا نام کسی بھی جگہ نہیں آیا اس لیے انہوں نے کبھی ضمانت بھی نہیں کروائی۔

احتساب عدالت نے دلائل سننے کے بعد سبطین خان کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق نیب کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا، جسے بعد ازاں سناتے ہوئے عدالت نے سبطین خان کا 10 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا اور انہیں تفتیش کے لیے نیب کے حوالے کردیا۔

عدالت نے سبطین خان کو 25 جون کو دوبارہ احتساب عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا، جس کے بعد نیب کی ٹیم سبطین خان کو لے کر نیب آفس روانہ ہوگئی۔

گذشتہ روز نیب لاہور نے وزیر جنگلات پنجاب سبطین خان کو کرپشن کے الزام کی انکوائری کے دوران گرفتار کیا تھا۔

نیب لاہور کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ایک کارروائی کے دوران سابق صوبائی وزیر برائے کان کنی و معدنیات ملزم محمد سبطین خان کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

سبطین خان پر چنیوٹ اور راجوہ میں اربوں روپے مالیت کے 500 میٹرک ٹن خام فولاد کا غیر قانونی ٹھیکہ من پسند کمپنی کو دینے کا الزام ہے۔

نیب لاہور نے کہا تھا کہ ملزم کی جانب سے جولائی 2007 میں 'میسرز ارتھ ریسورس پرائیویٹ لمیٹڈ' نامی کمپنی کو ٹھیکہ فراہم کرنے کے غیر قانونی احکامات جاری کیے گئے اور ملزم کی دیگر شریک ملزمان سے ملی بھگت سے کمپنی کو ٹھیکہ مروجہ قوانین سے انحراف کرتے ہوئے فراہم کیا گیا۔'

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری