اسرائیل حملہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے گا، حسن نصر اللہ


اسرائیل حملہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے گا، حسن نصر اللہ

سید حسن نصر اللہ نے کہا ہے کہ اسرائیل حزب اللہ کی دفاعی قوت سے بخوبی واقف ہے لہذا وہ حملہ کرنے سے پہلے ہزار دفعہ سوچے گا۔

خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق ایک انٹرویو کے دوران سید حسن نصر اللہ نے کہا ہے کہ حزب اللہ کے پاس وہ دفاعی قوت جو اسرائیل کو ہمارے ساتھ جنگ کرنے سے روکتی ہے۔

2006 کی جنگ میں ہم دفاعی قوت رکھتے تھے، آج ہمارے پاس حملہ کرنے کی طاقت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ہر حوالے سے اسٹریٹجک اسلحہ موجود ہے۔ میزائیل ٹیکنالوجی میں ہماری پیشرفت اور گائیڈڈ میزائل دشمن کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔

ہمارے پاس کثیر تعداد میں ڈرون طیارے کافی تعداد میں موجود ہے، علاوہ ازیں کئی قسم کے اسلحوں میں بڑی حد تک پیش رفت ہوئی ہے۔

بری، بحری، اور فضائی حوالے سے محور مقاومت نے ترقی کی ہے، نوعیت کے حوالے سے بھی اور تعداد کے اعتبار سے بھی، ٹریننگ کے اعتبار سے بھی اور مدد خدا پر یقین اور ایمان کے حوالے سے بھی۔

جس جگہ پر اسرائیل کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے، اور جو زخم مندمل نہیں ہو سکتا وہ یہ کہ ان کے اعتماد کو ختم کرنا، اور روحی اعتبار سے ان کو کاری زخم لگا ہے، جس کا علاج کرنا آسان نہیں۔

اس زخم کے علاج کے لئے آج تک اسرائیل نے جو کچھ بھی کیا ہے، وہ ناکام ہوا ہے، اس میں غزہ کی جنگ میں حماس کی مقاومت بھی شامل ہے۔ وہ چیز جس کو اسرائیل کبھی درست نہیں کرسکتا وہ اس کا داخلی طور پر تفرق اور ضعف ہے۔

اسرائیل کا یہ کہنا کہ ہم آئندہ ممکنہ جنگ میں لبنان کو پتھر کے دور میں لے جائیں گے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ مقبوضہ شمالی اسرائیل ہمارے میزائلوں کے نشانے پہ ہے اور ہر ٹارگٹ بارے میں ہمارے پاس تمام معلومات موجود ہیں۔

ساحلی پٹی نتانیا سے لے کر اشدود تک اگرچہ بڑی تعداد میں غاصب صہیونی سویلین آبادی ہے لکن اس غاصب وجود کے سب سے بڑے اور اہم مراکز یہاں ہیں۔

اس پٹی پر اہم صنعتیں، غیر تقلیدی اسلحہ، ایٹمی ری ایکٹر، دو بندرگاہیں، اہم تر تجارتی مراکز، سٹاک ایکسچینج، بجلی گھر اور گیس کے اہم مراکز موجود ہیں۔

اگر محور مقاومت کے پاس اتنے میزائل موجود ہیں جو ان تمام جگہوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں تو کیا اسرئیل کا غاصب وجود یہ برداشت کرے گا، یہاں کون کس کو پتھر کے دور میں لے جائے گا؟

کوئی بھی آئندہ ممکنہ جنگ اسرائیل کو یقینا زوال کی نوید سنائے گی۔ ہمیں آئندہ ممکنہ جنگ میں کامیابی کا ہر حوالے سے یقین ہے۔

میں ان لوگوں میں سے ہوں جو بہت پر امید ہیں کہ وہ قدس میں نماز پڑھیں گے۔

صدی کی ڈیل۔

مجھے اور میرے ساتھیوں کو یقین ہے کہ صدی کی ڈیل ناکام ہوگی۔

کچھ ایسے اسباب ہیں جو اس ڈیل کو اندر سے ختم کریں گے اور اسے اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہونے دیں گے۔

اسکی ناکامی کا سب سے بڑا سبب قدس کا مسئلہ ہے، اگرچہ باقی امور بھی اہم ہیں۔ ناکامی کے اسباب میں سے فلسطینیوں کا اس حوالے سے باہمی اتحاد ہے۔

ایران کی مدد عسکری اعتبار سے اور باقی حوالوں سے، شام میں جیت، یمن کی قربانیاں، فلسطینی عوام کا ثبات، اور محور مقاومت کی قوت اور طاقت ہے۔

لبنان کا موضوع۔

لبنان کے حدود کے مسئلے میں کچھ اسٹریٹجک اور ٹیکنیکل اسباب ہیں جن کی وجہ سے لبنان اقوام متحدہ کے زیر سایہ مذاکرات کا حامی ہے۔ اس حوالے سے اسرائیل کی تعیین پر کوئی اعتبار نہیں۔

شام۔

شامی حکومت مستحکم تر ہوتی جا رہی ہے۔ اور اس کا قبضہ قوی تر ہوتا جارہا ہے۔

فرات کے شرقی علاقہ کا مسئلہ اٹکا ہوا ہے۔ اور بنیادی مسئلہ ادلب کا شہر ہے۔

ان تمام مسائل پر کام جاری ہے، البتہ اب پیچھے جانے کا کوئی امکان نہیں۔

ہم آج تک شام میں ان تمام جگہوں پر موجود ہیں جہاں پہلے دن سے ہیں البتہ تعداد میں کمی کی ہے کیونکہ ضرورت نہیں۔ اس کا تعلق ایران پر پاندیوں سے نہیں۔

اس وقت ایران اور روس کے درمیان جنگی اور سیاسی اعتبار سے اتفاق رائے موجود ہے۔

اس وقت ایران اور روس پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہیں اور یہ سب جناب ٹرامپ کی برکت سے ہے۔

نتن یاہو سے کہتا ہوں کہ جو کچھ کر سکتے ہو کرو، ایران شام سے نہیں نکلے گا، یہی شامی حکومت کا فیصلہ ہے اور ایرانی حکومت کا بھی۔

اسرائیل نے شام میں عسکری پوسٹوں پر جتنی بھی فضائی بمباری کی ہے سب بے سود رہی۔

ایران کبھی جنگ شروع نہیں کرے گا، اور میرے خیال میں شاید امریکا بھی اس کی ابتداء نہ کرے۔

امریکا میں جو جہت سب سے زیادہ جنگ نہیں چاہتی وہ پینٹاگون ہے۔ امریکہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو امریکا کو جنگ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔

ٹرمپ اقتصادی پابندیوں سے امید لگائے بیٹھا ہے کیونکہ امریکا جانتا ہے کہ جنگ انتہائی نقصان دہ ہے طرفین یہی چاہیں گے کہ جنگ کی طرف نہ جایا جائے۔

ایران نے ایک ملک کے ذریعے پیغام بھیجا کہ اگر ایران کے کسی بھی جگہ پر بمباری ہوئی، ہم امریکی اہداف کو نشان بنائیں گے، اس لئے حملہ روک دیا گیا۔ ابھی تک جنگ کا ماحول قائم ہے۔ ہم سب کی ذمداری ہے کہ اس جنگ کو روکیں۔

ایران کبھی بھی براہ راست امریکہ سے مذاکرات نہیں کرے گا۔ وہ ہر اس ثالثی کے حامی ہیں جو ایرانی مفاد میں ہو۔ ایران کبھی بھی پابندیوں کی وجہ سے نہیں جھکے گا۔ یہ پابندیاں ایران کو اندر سے مضبوط کریں گی۔

 ایران ہمیشہ سعودیہ عرب سے مذاکرات کا حامی ہے۔ جب کہ سعودی عرب کی طرف سے ہمیشہ حوصلہ شکنی سازشیں سامنے آئیں جبکہ ایران ہر قسم کے ڈائیلاگ اور مذاکرات کا حامی ہے۔

یہ بات سب جان لیں کہ اگر امریکا اور ایران میں جنگ ہوئی تو پورا علاقہ تباہ وبرباد ہو جائے گا۔

آل سعود کو چاہیئے کہ وہ ایرانی دشمنی کو ایک جانب رکھے کیونکہ یہ جنگ پورے علاقے کو جلا کر رکھ دے گی۔

دوسرا یہ کہ اگر جنگ ہوئی تو اسرائیل کو کون بچائے گا؟ ایران سب سے پہلے اسرائیل کو نشانہ بنائے گا۔ اسرائیل کو جان لینا چاہیئے کہ وہ اس جنگ میں ہرگز محفوظ نہیں رہے گا۔

جب امریکا کو پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل کو نشانہ بنا کر تباہ و برباد کیا جائے گا تو پھر اسے سوچنا پڑتا ہے۔

ایران کے خلاف جنگ کا اعلان پورے علاقے کے خلاف جنگ کا اعلان ہے۔

امریکا کو یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ جنگ کی صورت میں پورے امریکا کو نشانہ بنایا جائے گا جس کے ساتھ ساتھ اسرائیل بھی اس جنگ کی آگ کی لپیٹ میں ہوگا۔

ٹرمپ کے پیغام کے جواب میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کا رد عمل ایک آبرو مندانہ اقدام تھا جس میں شجاعت بھی ہے اور حکمت بھی، اور یہ اس وقت کہ جہاں ٹرمپ سب سے پیسے لیتا ہے، ڈکٹیٹ کرتا ہے، وہاں اس کو اس بات کی حسرت رہی کہ ایرانی اسے ایک فون کرے، ایرانی مذاکرات کی پیشکش قبول کرے۔

ٹرمپ کی بلاواسطہ کوشش ہے کہ وہ حزب اللہ کے ساتھ روابط کا دروازہ کھلا رکھے۔

انصار اللہ اور یمنی قیادت کا مقصد ان پر مسلط شدہ جنگ روکنا ہے تاہم وہ بتدریج اس طرف جا رہے ہیں، وہ سعودی عرب کے ائیر پورٹس کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

امارات کے ایک سینئیر اہلکار کے مطابق امارات یمن کے دلدل سے نکنا چاہتا ہے۔

صحافی:

کیا آپ قدس میں نماز پڑھیں گے، یا آپ کے بیٹے، یا آپ کے پوتے؟؟

(دوسرے لفظوں میں یہ وقت قریب ہے یا دور)

سید حسن نصر اللہ:

سب سے پہلے یہ کہ زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن اگر ابھی کے حالات پر نظر کریں اور علاقے میں ہونے والے حادثات اور واقعات پر غور وفکر کی جائے تو میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ میں قدس میں نماز پڑھوں گا۔

 

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری