یقین نہیں آتا تو گوگل کر کے دیکھ لیں


یقین نہیں آتا تو گوگل کر کے دیکھ لیں

آج کے دور میں سرچ انجن گوگل سچ اور جھوٹ کا پیمانہ بن چکا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ گوگل اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ استعمال ہوئے والی سائٹ ہے۔ گوگل پر ایک سیکنڈ میں 63 ہزار سے زیادہ چیزیں سرچ کی جاتی ہیں۔ یعنی گوگل کے سرور دنیا بھر سے صرف ایک منٹ میں قریبا 38 لاکھ سرچ ریکوئسٹ موصول کرتے ہیں اور پلک جھپکتے میں صارف کے سامنے ان کے نتائج پیش کردئے جاتے ہیں۔

گوگل دور حاضر میں کسی نعمت سے کم نہیں، اسکول کے طلباء سے اپنے اپنے شعبوں میں پیشہ ور مہارت رکھنے والے لاکھوں کروڑوں صارف روزانہ کی بنیاد پر اس سرچ انجن سے مستفید ہوتے ہیں اور اپنی مطلوبہ معلومات حاصل کرتے ہیں۔

یہاں تک تو سب بہت اچھا اور آسان نظر آتا ہے لیکن ایک چیز جو نہایت خاموشی اور غیرمحسوس طریقے سے ہمارے اذہان میں سیرائیت کر چکی ہے وہ ہے گوگل پر اندھا اعتماد اور یہ انتہائی خطرناک بات ہے۔

آج کل ایک جملہ اکثر سننے کو ملتا ہے کہ اگر یقین نہیں آتا تو گوگل کر کے دیکھ لیں، گویا گوگل کی معلومات کو مصدقہ سمجھا جانے لگا ہے یعنی جو کچھ گوگل دکھا دے اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔

اگر ہم غور کریں تویہ سمجھنا مشکل نہیں کہ گوگل فقط ایک سرچ انجن ہے۔ اس کے دیئے ہوئے ہر نتیجے میں فقط وہ معلومات ہوتی ہے جو پہلے سے انٹرنیٹ پر موجود ہوتی ہے۔

گویا اس کی مثال کسی صندوق کے جیسی ہے کہ آپ کو اس صندوق سے وہی حاصل ہوگا جو آپ نے یا کسی نے خود اپنے ہاتھوں سے اس صندوق میں ڈالا تھا۔

نکتہ یہ ہے کہ گوگل کا استعمال کیجئے، اس سے نتائج بھی حاصل کیجئے لیکن ان نتائج پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لینا غلط ہے۔

اسی وجہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ کسی بیماری کی صورت میں ڈاکٹر سے رابطہ کیا جائے، اکثر لوگ اپنی بیماری کی علامات لکھ کر گوگل پر ہی اس کا علاج ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی صحت کا مزید نقصان کر بیٹھتے ہیں۔

بات خطرہ جان پر ہی ختم نہیں ہوتی، گوگل کی اندھی تقلید ہے خطرہ ایمان بھی پیدا ہو گیا ہے۔ بعض سادہ لوح افراد اپنے مذہبی عقائد اور سوالات کے جواب گوگل پر ڈھونڈنے کی کوشش میں گمراہ ہو جاتے ہیں کیونکہ گوگل جو نتائج دیتا ہے وہ مستند نہیں ہوتے، نتیجتا ہمارا وہ صارف جو گوگل پر اندھا اعتماد کرتا ہے، اپنے مذہب کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتا ہے۔

مندرجہ بالا سطور کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم گوگل کا استعمال چھوڑ دیں البتہ جس طرح ہر بات ہر شخص کے لئے نہیں ہوتی اور ہر شخص ہر بات کے لئے نہیں ہوتا، اسی طرح ہر تحقیق یا معلومات گوگل سے حاصل نہیں کی جاتی۔

گوگل کی اندھی تقلید کرنے کے بجائے اس بات کا اطمینان کر لینا چاہیئے کہ جو معلومات گوگل سے حاصل کی جا رہی ہیں ان کی وجہ سے کوئی خطرہ جاں یا خطرہ ایماں تو نہیں۔

تحریر: سید عدنان قمر جعفری

(ادارے کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری