ریاست ِ مدینہ کا تصور اور قیام ِ امام حسین علیہ السلام


ریاست ِ مدینہ کا تصور اور قیام ِ امام حسین علیہ السلام

خلقت ِانسان کے بعد مختلف زمانوں میں مختلف انبیاء و رسل نے انسانی معاشروں کی اصلاح اور رہنمائی کے لیے اللہ کے احکامات کے تحت اجتماعی نظام قائم کیے اور ریاست و حکومت کے ذریعے لوگوں کے اندر عدل و انصاف کو رواج دیا۔

تحریر: قائد ِ ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی

اگرچہ خلقت ِانسان کے بعد مختلف زمانوں میں مختلف انبیاء و رسل نے انسانی معاشروں کی اصلاح اور رہنمائی کے لیے اللہ کے احکامات کے تحت اجتماعی نظام قائم کیے اور ریاست و حکومت کے ذریعے لوگوں کے اندر عدل و انصاف کو رواج دیا لیکن تکمیل ِ دین و اکمال ِ رسالت کے تسلسل میں ایک مثالی اور رہنماء معاشرتی و سماجی نظام کا اکمل ترین تصور اور نمونہ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے ذریعے سامنے لایا گیا جو رہتی دنیا تک انسانی معاشرے کی سماجی اور معاشرتی ضروریات پوری کرتا رہے گا۔

مکے کی گلیوں میں طعن و تشنیع اور ظلم و تجاوز کے ماحول میں شروع ہونے والا یہ سفر مکی دور کی صعوبتوں سے لبریز تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں مکہ والوں کی مذہبی اور انفرادی اصلاح کا بیڑا اٹھائے ہوئے تھے وہاں انہیں ایک رب اور ایک خالق کے عطا کردہ اجتماعی نظام کے تحت زندگی بسر کرنے کی رغبت بھی دلا رہے تھے۔

آپ نے مکہ میں ماحول کی سازگاری نہ پاکر مدینہ کی طرف ہجرت کا قدم اٹھایا تو اس کے پس منظر میں اسی اجتماعی سماجی نظام تعارف اور نفاذ تھا جس کی خاطر آپ مبعوث فرمائے گئے تھے ۔ ہزاروں قربانیوں ‘ لاکھوں تکالیف ‘ کئی جنگوں ‘ متعدد شہادتوں ‘ لاتعداد زخموں اور ہجرت جیسے تکلیف دہ مرحلے کے بعد خدا کی زمین پر ”ریاست ِ مدینہ “ کی شکل میں اجتماعی سماجی نظام وجود میں آیا۔

پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دست ِ مبارک سے ایک ایسی الہی ریاست کی عملی شکل سامنے آئی جس میں عدل ہی عدل تھا۔ انصاف کا دور دورہ تھا۔ دین کی حاکمیت تھی۔ احکامات خداوندی کا عملی نفاذ تھا۔ جزاءو سزا کارواج تھا۔ انسانی حقوق کی فراہمی یقینی تھی۔ کرپشن کے تدارک کے راستے موجود تھے۔ میثاق ِ مدینہ کی شکل میں ایک عظیم دستاویز رہنمائی کے لیے موجود تھی۔ اقامت صلواة تمام تقاضوں کے مطابق ہورہی تھی۔ ادائیگی زکوة تمام قوانین کے تحت ہورہی تھی۔ امر بالمعروف اپنے تمام امکانات کے تحت کیا جارہا تھا اور نہی عن المنکر اپنے تمام مواقع پر ادا ہورہا تھا۔ خود امام حسین علیہ السلام ریاست ِ مدینہ کے عروج اور طمطراق کے عینی شاہد بن رہے تھے۔ اپنے بابا کے ساتھ مل کر چار سال تک ریاست ِ مدینہ کا بھرپور دفاع کیا اور مستقبل میں ممکنہ مسائل اور خطرات کا قبل از وقت ادراک حاصل کیا۔

ریاست ِ مدینہ کے بانی اپنے نواسے کو ریاست ِ مدینہ کی اہمیت ‘ ضرورت ‘ حیثیت ‘ اور دائرہ کار کے بارے مختلف مراحل میں بریفنگ دیتے چلے جارہے تھے اور نواسہ ریاست مدینہ کو ایک دائمی نظام اور الہی سسٹم جان کر اس کی بقاءو حفاظت کی منصوبہ بندی کرتا چلا جارہا تھا۔ حسین علیہ السلام جانتے تھے اللہ تعالی نے والی مدینہ پر قرآن کیوں اتارا ہے؟ انہیں کامل دین سے کیوں سرفراز کیا ہے؟ ان قرآنی احکامات کی کیا قدر و منزلت ہے؟ اس کامل دین کے کیا کیا تقاضے ہیں؟ والی ریاست مدینہ کی نیابت کا اعزاز رکھنے والے اور خود امت کی امامت کے منصب پر فائز امام حسین علیہ السلام اس بات سے آگاہ تھے کہ اس ریاست کی بنیادوں کو کن کن راستوں اور کن کن عناصر سے کیا کیا خطرات لاحق ہوسکتے ہیں؟ کہاں کہاں سے کون کون حملہ آور ہوسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اپنے برادر ِ بزرگوار امام حسن علیہ السلام کے ساتھ مل کر بھی ”نظام ِ ریاست ِ مدینہ “ پر سخت پہرہ دیا جس کا شاہد وہ خطبہ ہے جو امام حسین علیہ السلام نے منیٰ میں صحابہ اور ان کے فرزندان کو جمع کرکے دیا۔

بھائی کی شہادت کے بعد جب حالات اس شدت تک پہنچ گئے کہ یزید جیسا فاسق و فاجر شخص تخت پر قابض ہوگیا۔ جس نے دین کے احکامات کی کھلی توہین کی۔ اللہ کے قوانین کی سرِ عام نفی کی۔ قرآن کی شکل میں لائی گئی اللہ کی وحی کو صریحاً جھٹلانا شروع کردیا۔ ضروریات ِ دین کا برملا انکار کیا۔ بدعتوں کو جاری کیا۔ حتی کہ ریاست ِ مدینہ کا حلیہ بگاڑ کر شخصی آمریت اور بے دین و فاشسٹ حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا تو ”حسین ؑ منی وانا من الحسین ؑ “ کا اعزاز پانے والے امام حسین علیہ السلام نے یزید کے خلاف قیام کا اعلان فرمایا۔

مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا تک امام ِ عالی مقام نے ہر مقام اور ہر مرحلے پر اپنے خطبات میں اپنی جدوجہد ‘ اپنے سفر اور اپنے قیام کے اسباب اور وجوہات بڑے روشن اور واضح انداز و الفاظ سے بیان کیے جس میں انہوں نے فرمایا کہ ”تم دیکھ رہے ہو کہ خدائی عہد و پیمان کو توڑا جارہا ہے ۔ اس کے قوانین کی مخالفت کی جارہی ہے ۔۔۔تم دیکھ نہیں رہے کہ حق پر عمل نہیں ہورہا اور باطل سے منہ نہیں موڑا جارہا “ اسی خطبے میں آپ نے قرآن کریم کی سورہ حج کی آیت 14 میں اس حکم ِ خدا کی اپنے دور کے حالات کے تحت عملی مثال پیش فرمائی جس میں اللہ تعالی فرماتے ہیں۔ ” یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نمازقائم کریں گے۔ زکوة دیں گے۔ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے “۔

اس تناظر میں امام حسین علیہ السلام نے فرمایا ” امور ِ مملکت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہونے چاہئیں جو خداوند عالم کے احکامات کا علم رکھتے ہوں۔ اور اس کے حلال و حرام کے امین ہوں۔۔۔۔۔۔لیکن تم نے تو ظالموں اور ستمگاروں کو اپنے اوپر مسلط کردیا اور خدائی امور کی باگ ڈور (یعنی حکومت) ان کے ہاتھوں میں دے دی تاکہ وہ حلال اور حرام کو آپس میں ملادیںاور خود اپنی خواہشات ِ نفسانی کے سمندر میں غوطہ زن رہیں۔۔۔۔آخر میں آپ نے فرمایا ”خداوندا، ہماری یہ تحریک نہ تو حکومت کی اور قدرت کی رقابت کے لیے ہے اور نہ ہی مال و دولت کے حصول کے لیے ‘ بلکہ اس لیے ہے کہ ہم تیرے دین کی نشانیاں واپس لوٹائیں اور ایک اسلامی مملکت میں اصلاح کا اجراءکریں تاکہ تیرے مظلوم اور ستم رسیدہ بندے سکھ کا سانس لے سکیں اور تیرے واجبات ‘ احکام اور سنتوں کا اجراء ہوسکے ۔“ ۔ اسی قسم کے الفاظ امام عالی مقام عکیہ السلام نے مدینہ سے روانگی کے وقت اپنے بھائی حضرت محمد حنفیہ کے نام اپنے تاریخی وصیت نامے میں ادا فرمائے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں ”میں نہ خود خواہی ‘ سرکشی اور نفسانی خواہشات کے تابع ہوکر مدینہ چھوڑ رہا ہوں اور نہ ہی فتنہ و فساد برپا کرنے اور ظلم کا ارتکاب کرنے کے لیے ۔ بلکہ میرا واحد مقصد یہ ہے کہ میں نانا کی امت میں اصلاح کروں جو مفاسد میں پڑچکی ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دوں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی چاہتا ہوں کہ اپنے جد ِ بزرگوار پیغمبر ِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پدر ِ عالی قدر علی ابن ِ ابی طالب علیہ السلام کی سیرت کو اپناﺅں ۔ جو شخص حق کا احترام کرتے ہوئے میری اتباع کرنا چاہتا ہے وہ میرے ساتھ چلے۔ البتہ میں نہ اپنا راستہ متعین کرلیا ہے۔ آگے خدا کی مرضی میرے اور اس قوم کے درمیان جو چاہے فیصلہ کرے گا۔ کیونکہ وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔“

درج بالا متون کو اگر دور حاضر کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے امام حسین علیہ السلام کی جدوجہد اور قیام جہاں حدود ِ الہی کی پامالی کے خلاف تھا وہاں مظلوم اور ستم رسیدہ طبقات کو امن و اطمینان کی زندگی دلوانے کے لیے بھی تھا۔ جہاں دینی احکامات پامال ہونے کے خلاف تھا وہاں بے عدلی اور ناانصافی کے خلاف بھی تھا معاشرے کے ہر شعبے میں پیدا کردی گئی تھی۔ اسی طرح امام عالی مقام علیہ السلام نے جہاں قرآن کے احکام کی روشنی میں حق ِ اقتدار کے حامل طبقات کو متعارف کرایا وہاں حکومت کے حامل لوگوں کی ذمہ داریوں اور فرائض سے بھی آگاہ فرمایا۔ جہاں حکمرانوں کے غلط اقدامات کی نشان دہی کی وہاں ہردور کی اپوزیشن کے لیے بھی رہنمائی فراہم کردی کہ وہ کسی ذاتی شہرت و مفادات کے حصول یا مال و دولت کے لالچ کے لیے حکومتوں کے خلاف محاذ آرائی کی بجائے اپنے معاشرے اور ملک کے لوگوں کی اصلاح و رہنمائی اور فلاح و بہبود کو مطمع نظر بنائیں۔

ہمارے معاشروں اور حکومتی و سیاسی نظام میں موجود مالی بے ضابطگی اور کرپشن موجود ہے اس کے خاتمے کی رہنمائی بھی حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے ایک خطبے میں ارشاد فرمائی ہے جو آپ نے مکہ سے عراق جاتے ہوئے منزل ِ بیضہ پر حکومتی لشکر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔ آپ فرماتے ہیں ” لوگو گواہ رہنا ان لوگوں (حکمرانوں) نے خدا کی اطاعت کو ترک کرکے شیطان کی پیروی اپنے لیے لازم قرار دے دی ہے۔ برائیوں کو رائج اور حدود ِ الہی کو معطل کردیا ہے۔ مال ِ فے (قومی خزانے) کو اپنے ساتھ مختص کرلیا ہے ۔ خدا کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دے دیا ہے۔ اس کے اوامر و نواہی کو بدل ڈالا ہے۔ میں مسلم امہ کی رہبری اور امامت کے لیے ان مفسدین سے کئی درجہ بہتر ہوں جنہوں نے میرے جد امجد رسول مکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دین کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔“ قومی خزانہ کرپشن کے ذریعے اپنے ذاتی امور پر خرچ کرنے والے اور دوسروں کے مالی حق پر ڈال کر اپنی تجوریاں بھرنے والے حکمرانوں اور صاحبان ِ اقتدار کے لیے امام حسین علیہ السلام کی وارننگ آج بھی ہماری رہنمائی کررہی ہے کہ ہم نے کس طرح کرپشن اور کرپٹ نظام کا راستہ روکنا ہے۔

جو جو مقاصد انبیاء کی بعثت کے تھے۔ وہی مقاصد حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام کے پس منظر میں تھے۔ ریاست مدینہ کی شکل میں اجتماعی سماجی اورسیاسی و حکومتی نظام کے حقیقت سے 16 ہجری میں امام حسین ؑ سے زیادہ کون واقف اور شناسا تھا؟ آپ نے ریاست مدینہ کی بحالی کے لیے اپنے خاندان ‘ اعزاءو اقربا اور اصحاب و جانثاران کے ساتھ دلیرانہ اور شجاعانہ جدوجہد اور قیام فرمایا ۔ اس قیام کے نتیجے میں آپ اور آپ کے آل و اصحاب کو ریگزار ِ کربلا میں تین دن کی شدید پیاس کے بعد شہادت قبول کرنا پڑی لیکن آخری مرحلے تک آپ نے اپنے نظریے کو ترک نہیں کیا ۔ اپنا راستہ نہیں بدلا اور اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ لہذا دور حاضر میں اگر ہم نے ریاست ِ مدینہ کے خواب کو الفاظ کی دنیا سے زمینی دنیا پر نافذ کرنا ہے تو ہمیں امام حسین علیہ السلام کے خطوط‘ خطبات اور بیانات کا بغور مطالعہ کرنا ہوگا ان میں موجود حقائق کا ادراک کرنا ہوگا ان حقائق کی روشنی میں اپنی حکومتوں اور اپنے معاشروں کی اصلاح و ترقی کا لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا اور ریاست مدینہ کی طرز پر لوگوں کو ان کے ذاتی اور اجتماعی حقوق فراہم کرنے ہوں گے۔ انہیں عدل و انصاف اور سکون و اطمینان کی زندگی دینا ہوگی۔ انہیں امن اور خوشحالی کا ماحول فراہم کرنا ہوگا اور انہیں اس قرآنی فارمولے کے تحت اپنے امور انجام دینے کے مواقع فراہم کرنا ہوں گے جو سورہ حج کی آیت 14 میں دیا گیا ہے۔ یہی فارمولا ہی ریاست مدینہ کی اساس ہے۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری