گوادر اور چابہارکو حریف بنا کرپیش کرنے کی ناکام کوششیں


گوادر اور چابہارکو حریف بنا کرپیش کرنے کی ناکام کوششیں

گزشتہ کئی سالوں سے اسلامی جمہوریہ ایران اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات، گوادر اور چابہار کے درمیان مکمل ہم آہنگی کے باجود بعض استعماری طاقتیں ان دونوں بندرگاہوں کو حریف کے طور پرپیش کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔

تسنیم خبررساں ادارہ: ہرملک کی ترقی میں سڑکوں، ریلوئے، ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان اور ایران نے بھی اپنی اپنی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے گوادر اور چابہار میں اربوں ڈالر سرمایہ کاری کروا کر خطے کو ترقی کے نئی منازل کی جانب گامزن کرنے کی کوشش کی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دونوں بندرگاہیں خطے سمیت پوری دنیا کے لئے نہایت اہم ہیں اور یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ گوادر اور چابہار ایک دوسرے کے لئے خطرہ ہیں؛ بلکہ یہ دونوں بندرگاہیں ایک دوسرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔

بعض دشمن عناصر یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ چابہار بندرگاہ گوادر منصوبے کو کمزور کرنے کی خاطر تعمیر کی جارہی ہے۔

درحقیقت یہ ان ممالک کا منفی پروپگنڈا ہے جو پاک ایران تعلقات کے خلاف ہیں۔

ایرانی اور پاکستانی حکام نے اس تاثرکو ختم کرنے کے لئے 9نومبر2018 کو چابہار اور گوادر کو جڑواں بندرگاہ قرار دے دیا تھا تاکہ دونوں ملکوں کے شہریوں کے خدشات دور ہوسکیں۔

واضح رہے کہ گوادر، ایران کے سرحدی علاقے ریمدان سے صرف 90 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے لہذا اس جغرافیائی پوزیشن کو مد نظر رکھتے ہوئے دونوں بندرگاہیں ایک دوسرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ گوادر اور چابہار کو ایک دوسرے سے منسلک ہونا چاہئے اس سے دونوں ملکوں سمیت پوری دنیا پرمثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

ضرورت اس وقت اس امر کی ہے کہ دونوں بندرگاہوں کو ایک دوسرے کے خلاف اور حریف قرار دینے کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے بھرپور کوشش کی جائے۔ دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اپنے اقتصادی و معاشی معاملات اور سیاسی مسائل کے مابین خط امتیاز کھینچیں اور باہمی تجارت کو فروغ دینے کے لئے دوںوں ہمسایہ ممالک کے مابین زیادہ ہم آہنگی پیدا کریں، تاکہ بیرونی قوتوں کو ہمارے معاملات میں مداخلت اور ہمارے سیاسی مستقبل کا تعین کرنے کا کم سے کم موقع ملے۔ یہ کام مشکل ضرور ہے، تاہم ناممکن نہیں۔

خیال رہے کہ ایران کی چابہار بندرگاہ اپنی اسٹریٹیجک پوزیشن کی بناپر وسطی ایشیا کے خشکی میں گھرے ملکوں منجملہ افغانستان، ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان، قرقیزستان اور قزاقستان کو سمندر تک رسائی کا نزدیک ترین راستہ فراہم کرتی ہے۔

یاد رہے کہ سن 2002ء میں جنرل پرویز مشرف نے گوادر پورٹ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا، جو مختلف مراحل سے گزرتا اب سی پیک (چین، پاکستان اقتصادی راہ داری)کی شکل اختیار کرچکا ہے، بلاشبہ یہ ایران اور پاکستان سمیت پوری دنیا کے لیے ایک روشن مستقبل کی نوید ہے۔

 

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری