پاکستان زرد نہیں، پاکستان سبز ہے !!!


پاکستان زرد نہیں، پاکستان سبز ہے !!!

دنیا کے دوسرے خوبصورت ترین وفاقی دارالحکومت، اسلام آباد میں آج کل دکھائی دینے والے مناظر کے برعکس پاکستان زرد نہیں، سبز ہے۔

احتجاج، ہر پاکستانی شہری کا حق ہے، جمہوریت کا حسن ہے، تاہم گذشتہ ڈیڑھ دو ہفتوں سے جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے وہ کم ازکم احتجاج کے زمرے میں تو نہیں آتا۔

زرد وردیوں میں ملبوس لٹھ بردار حضرات وفاقی  دارالحکومت کی شاہراہوں پر گشت کرتے نظر آرہے ہیں۔ کبھی پارکوں میں بچوں کو ہراساں کرتے ہوئے ان کے جھولے جھول رہے ہیں تو کبھی چڑیا گھر کا ڈنڈا بردار دورہ کر رہے ہیں۔

انہی حضرات کے لیڈر مولانا فضل الرحمن کبھی ایک جمہوری حکومت کو الٹا کر ملک کا نظام اپنے ہاتھوں میں لینے کی بات کرتے ہیں تو کبھی مارچ کے شرکاء کو وزیراعظم ہاوس جا کر عوامی ووٹوں سے منتخب وزیراعظم کو گرفتار کرنے کے لئے اکساتے نظر آتے ہیں اور حد تو یہ کہ اس قدر غیر آئینی، غیر منطقی اور غیر اخلاقی بات پر شرکاء جوش میں آپے سے باہر ہوتے ہوئے عوام کے منتخب شدہ وزیراعظم کے خلاف نعرے بھی لگاتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن نے اپنے جوش خطابت میں فقط پاکستانی عوام کے منتخب وزیراعظم کی حکومت کا تختہ الٹنے کے نیک ارادے  ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ بھی فرما دیا ہم (گنتی کی 4 سیٹوں کے ساتھ) خود اس ملک کا نظام سنبھالیں گے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس قدر مضحکہ خیز دعوی شاید ہی کسی نے کیا ہو اور شاید ہی کسی نے سنا ہو۔ بفرض محال اگر وزیراعظم پاکستان استعفی دے بھی دیتے ہیں تو کس قانون کے تحت مولانا ملک سنبھالیں گے، حتی اگر اسمبلیاں تک تحلیل ہو جائیں تب بھی کس قانون، کس نظام کے تحت وہ ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کی بات کرتے ہیں۔

مولانا کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ مٹھی بھر ڈنڈا بردار افراد سے سلامی لے کر کوئی 21 کروڑ عوام کا نمائندہ نہیں بن جاتا، اتنے لوگ تو کسی گاوں کے نمبردار کو بھی آتے جاتے سلام کرتے ہیں۔

ایک اور اہم بات یہ کہ مولانا کا وزیراعظم کے مستعفی ہونے کا مطالبہ سرے سے ہی غیر آئینی ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ موجودہ حکمران جماعت نے بھی سابق حکومت کے خلاف احتجاج کیا تھا، دھرنا دیا تھا۔ تاہم ان کا مطالبہ 4 حلقے کھولنے کا تھا کہ ان کی گنتی دوبارہ کی جائے۔ جبکہ مولانا صاحب کی سوئی فقط وزیراعظم کے استعفی پر اٹکی ہوئی ہے۔ حالانکہ وزیراعظم نے خود تجویز پیش کی ہے کہ اگر مولانا کو لگتا ہے کہ موجودہ حکومت دھاندلی کر کے آئی ہے تو 4 نہیں، تمام حلقے دوبارہ کھلوا کر ووٹوں کی گنتی کر لی جائے لیکن کیا کیا جائے کہ مرغے کی وہی ایک ٹانگ اور اپنے لٹھ بردار زرد لشکر کی مدد سے عالمی سطح پر پاکستان کا تشخص مجروح کرنے کی کوشش۔

حالانکہ یہ پاکستان کا اصل چہرہ نہیں ہے، پاکستان کا چہرہ اس قدر زرد نہیں ہے کہ انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن اسلام آباد میں ان لٹھ برادروں کے سبب سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر رواں ماہ شیڈول ڈیوس کپ مقابلوں کی میزبانی پاکستان سے لے لے۔

بلکہ پاکستان سبز ہے، اس قدر سبز کہ پاکستان کو جنوری 2019 میں ہونے والے کبڈی ورلڈ کپ کی میزبانی کا اعزاز ملا ہے جس میں 10 ممالک کی ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔

پاکستان اس قدر سبز ہے کہ چشم فلک نے دیکھا کہ "آزاری مارچ" میں وزیراعظم مردہ باد کے نعرے لگانے والے جان نثار شرکاء کا جوش و خروش جب اسلام آباد کی موسلادھار بارش میں بہہ گیا اور حکومت خلاف نعروں کی جگہ کھانسی اور چھینکوں نے لے لی تب اسی وزیراعظم کی ہدایات پر حکومت کی مشینری حرکت میں آئی اور نہ صرف دھرنے گاہ سے بارش کے پانی کی نکاسی کی گئی بلکہ سردی سے ٹھٹھرتے اور بخار میں پھنکتے ہوئے بیماروں کو طبی امداد پہنچانے کے لئے ایمبولینسیں بھی پہنچ گئیں۔

پاکستان اس قدر سبز ہے کہ امریکی سرمایہ کاروں نے یہ کہتے ہوئے کہ پاکستان جتنا گھوم رہے ہیں اتنا ہی پسند آرہا ہے، سیاحت کے شعبے میں 10 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔

پاکستان اس قدر سبز ہے کہ امریکہ کے علاوہ چین، ہانگ کانگ اور ہالینڈ جیسے ممالک یہاں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

پاکستان اس قدر سبز ہے کہ مشرق وسطی اور برطانیہ سمیت دنیا کی کئی بڑی اقتصادی قوتیں سی پیک میں حصہ لینے میں مکرر دلچسپی ظاہر کر چکی ہیں۔

پاکستان اس قدر سبز ہے کہ برطانوی شاہی جوڑا اس ملک کے سیاحتی دورے پر آتا ہے اور خصوصا اس کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے۔

پاکستان اس قدر سبز ہے کہ اس نے اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتے ہوئے سعودی عرب اور ایران کے مابین جاری سیاسی کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے ایک نہایت مثبت قدم اٹھایا ہے۔

پاکستان اس قدر سبز ہے کہ اس نے سکھ برادی کی آسانی کے لئے ریکارڈ مدت میں نہ صرف کرتارپور راہداری کی تعمیر کی بلکہ سکھ یاتریوں کے ملک میں داخلے کے لئے پاسپورٹ تک کی شرط ختم کر دی۔ پاکستان کی اس پھیلی بانہوں کو جہاں امریکہ سمیت اقوام متحدہ کے متعدد ممالک نے سراہا وہیں بھارتی وزیراعظم تک حکومت پاکستان کا شکریہ کرنے پر مجبور ہو گئے۔

یاد رہے، جیسا کہ مولانا عالمی میڈیا کو دکھا رہے ہیں یا دکھانا چاہتے ہیں، پاکستان ویسا زرد نہیں، پاکستان سبز ہے، سرسبز ہے۔

تحریر: سید عدنان قمر جعفری

(ادارے کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری