اگر ہم حضور اکرم (ص) کے  بتائے ہوئے راستے پر چلنا چاہتے ہیں تو ہمیں ریاست مدینہ میں وضع کیے گئے راستے پر چلنا ہوگا، شیخ عمار الھلالی


اگر ہم حضور اکرم (ص) کے  بتائے ہوئے راستے پر چلنا چاہتے ہیں تو ہمیں ریاست مدینہ میں وضع کیے گئے راستے پر چلنا ہوگا، شیخ عمار الھلالی

سیرت النبی (ص) کانفرنس میں شرکت کے لئے پاکستان آئے عراق کے ممتاز عالم دین شیخ عمار الھلالی نے تسنیم نیوز سے خصوصی گفتگو کی۔ 

عراق کے ممتاز عالم دین شیخ عمار الھلالی کا تعلق بصرہ سے ہے، آپ 1977 میں عراق میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم بصرہ میں حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے نجف الاشرف کا رخ کیا اور تاریخ اسلامی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری الصدر یونیورسٹی، نجف الاشرف سے حاصل کی۔ نجف الاشرف کے جید علما کی موجودگی میں اپنا تحقیقی مقالہ درس خارج پیش کیااور سند حاصل کی۔  آپ آیت اللہ شیخ محمد یعقوبی کی نمائندگی کر رہے ہیں اور ان کے رفاہی، تعلیمی اور میڈیا کے پراجیکٹس کو دیکھتے ہیں۔  آپ نے اپنے تجربے اور سیاسی بصیرت کے بدولت عراقی پارلیمان کو کئی بہترین ایم این اے تیار کرکے دیئے ہیں۔ 

سوال: سب سے پہلے اپنے بنیادی تعارف سے آغاز کیجیے گا؟
شیخ عمار الھلالی:  میں شیخ عمار الھلالی، نمایندہ مرجع عالی قدر آیت اللہ شیخ محمد یعقوبی ہوں۔  اوران کیطرف سے افغانستان،  پاکستان اور بھارت اور دکچھ دیگر ممالک میں ذمہ داری ادا کر رہا ہوں، اور میں آج یہاں پاکستان میں وزارت مذہبی امور کی دعوت پر ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے موجود ہوں۔  میلاد نبوی (ص) کے حوالے سے ہمیں دعوت دی گیی ہے۔  جو کہ مسلمانوں کی وحدت اور یکجہتی کا ایک اہم موقع سمجھا جاتا ہے۔


سوال: محسن انسانیت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مسلمانوں کے لیے نقطہ وحدت ہے، آج مسلم امہ کو اتحاد کی کس حدتک ضرورت ہے؟
شیخ عمار الھلالی:   حضور اکرم (ص) نے اپنی ابتدایی زندگی میں ایک جاہلیت بھرے معاشرے میں اپنی تبلیغ کا آغاز کیا۔ آپ نے تبلیغ کے ذریعے ایک محبت بھرے معاشرے کی بنیاد رکھی جو آپس میں اتفاق اور اتحاد سے رہتے تھے۔  آج ہم مذہب پرستی اور قوم پرستی جیسے نعروں میں بٹ چکے ہیں،  اگر ہم حضور اکرم (ص) کے  بتایے راستے پر چلنا چاہتے ہیں تو ہمیں ریاست مدینہ میں وضع کیے گیے راستے پر چلنا ہوگا۔ اس ریاست کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس معاشرے میں تمام ادیان کے لوگ مل جل کر رہا کرتے تھے۔ یہ ایام مبارکہ ہمارے لیے بڑا موقع ہیں کہ اس مدنی معاشرے کو ہم دوبارہ اجاگر کریں۔

سوال:  ایام میلاد پیعمبر گرامی (ص)، آپ کی ذات ایک مکمل نمونہ اور خلق عظیم ہے، یہ ایام اور آپ کی ذات مبارکہ ہم سے کیا تقاضا کرتی ہے؟
شیخ عمار الھلالی:  سب سے پہلے تو میں امت مسلمہ کو اس اہم مناسب کی مبارک پیش کرتا ہوں،  ہم ان شخصیات کو اپنا آییڈیل قرار دیتے ہیں اور ان کی سیرت اور ان کے قصوں سے استفادہ کرتے ہیں اسی طرح کی ولادت اور شہادت کے ایام کو مناتے ہیں۔ تاکہ ان کے نقش قدم پر چل کر اپنی دین دنیا سنوار سکیں۔ 

سوال: استعماری طاقتوں نے عراق کو تاراج کیا، اس حوالے سے صدام کا کردار انتہایی اہم ہے،  آج کا عراق کس قدر محفوظ اور مضبوط ہے؟
شیخ عمار الھلالی:  صدام کے بعثی فاسٹ نظام کے ذریعے  لسان، قوم پرستی اور مذہب پرستی کو ترویج دی گیی، اس نظام کے حضور کے وضع کردہ سسٹم کے مخالف کام کیا۔ 
عراق میں امریکی استعمار داخل ہونے کے مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے کی کوشش کی گیی اور مذہبی تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کی گیی تاکہ عراق کو کمزور کیا جا سکے۔ 

سوال:  آپ ایک بہترین مدیر اور میڈیا آرگنایزیشن کے عراق میں سربراہ رہ چکے ہیں،  داعش کی پشت پناہی میں  عالمی میڈیا کے کردار پر روشنی ڈالیں؟
شیخ عمار الھلالی:  دہشت گرد تنظیم داعش کو فروغ دینے میں عالمی میڈیا نے بڑا کردار ادا کیا،  اور اس کرایے کے میڈیا نے عراقی عوام میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کی اور اہم ایسا پیغام پہنچایا کہ اس دہشت گرد تنظیم کو آسانی سے شکست نہیں دی سکتی، تاہم اللہ کی قدر ت اور مرجعیت نے اس خطرے کا مقا بلہ کیا اور اللہ کا شکر ہے کہ اس شکست فاش سے دوچار کیا گیا، حالانکہ امریکہ نے کا کہنا تھا کہ اس تنظیم کو پچاس سال تک شکست نہیں دی سکتی۔ تاہم اب صورتحال کو کنٹرول کیا جا چکا ہے، یہ سب اللہ کی مہربانی اور مرجعیت کے ٹھوس اقدامات کے بدولت ممکن ہو اہے۔  اس فتح میں جمہوری اسلامی ایران نے اہم کردار ادا کیا ہے، اس فتح میں ایران ہمارا پارٹنر ہے۔  اور یہ سب کچھ اڑھایی سال میں کرکے دکھایا گیا ہے۔ 

سوال:  پاک عراق تعلقات بارے بتایے، ان میں مزید بہتری کیسے لایی جاسکتی ہے؟
شیخ عمار الھلالی:  بلاشبہ پاکستان اور عراق برادر اسلامی ممالک ہیں، اور ایک دوسرے کے ان کے خوشگوار تعلقات پایے جاتے ہیں۔ تاہم یہ تعلقات اس سطح پر نہیں ہیں جس سطح پر انہیں ہونا چاہیے۔ جبکہ ان تعلقات کو مزید گہرا اور مضبوط ہونا چاہیے۔  ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ اربعین کے دوران ایک لاکھ پاکستان زایرین عراق ا|ے، یہ اس بات کو ثبوت ہے کہ وہ عراق کو محفوظ سمجھتے ہیں یہ سوچ اگر نہ ہوتی تو وہ کبھی زیارت کے یے نہ آتے، شیعہ کے ساتھ ساتھ لاتعداد سنی بھاییوں نے بھی زیارت کا شرف حاصل کیا۔  اور امید ہے کہ آیندہ عراق اور پاکستان کے درمیان  پیار محبت اور بھایی چارہ کو فروغ ملے گا۔ چونکہ ہم سب حضور (ص) اہل بیت (ع) کی محبت میں جڑے ہویے ہیں۔ 


سوال: جس انداز میں حشد الشعبی نے داعش کے مقابل عراقی مقدسات کا دفاع کیا، اسی طرح پاک فوج دہشتگردوں کے خلاف ملک کے طول و ارض میں لڑ رہی ہے، کیا کہنا چاہیں گے؟
شیخ عمار الھلالی: گزشتہ دال ہمارے ملک کے سفیر نے  پاکستان کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا، انہوں نے کہا تھا کہ ہم پاکستان کے شکر گزار ہیں، جن کی حمایت کے بدولت عراق اور عراقی قوم نے داعش کو شکست فاش سے دوچار کیا،  یہ فتح صرف عراقی قوم نہیں بلکہ عالم اسلام کی فتح ہے۔  اسی طرح پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف جو جنگ لڑ رہی ہے یہ عالم اسلام کی جنگ ہے،  اگر پاک فوج ان دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں کرگے گی تو کل یہ عراق تک پہنچ سکتے ہیں۔

سوال:  اربعین حسینی کے موقع پر عراقیوں کا جذبہ دیدنی ہوتا ہے جس سے وہ زائرین کی خدمت کریت ہیں، کیا طاقت کارفرما ہے؟
شیخ عمار الھلالی:  مرجع عالی قدر آیت اللہ یعقوبی نے فرمایا ہے کہ یہ ایک معجزہ کہ عراقی اس طرح ٹوٹ کر زایرین کی خدمت کرتے ہیں۔  چونکہ عراق میں سرکاری سطح پر انتظامات نہ ہونے کے باوجود عراقی عوام اپنا فرض سمجھ کر ان کی خدمت کرتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ امام حسین (ع) اور اہل بیت (ع) کی محبت اور ان کی تعلیمات سے جڑے رہنے کی بدولت ہے۔ 

سوال:   عراق کے دوست، ہمسایہ اور برادر اسلامی ملک ایران کے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں، خاص طور پر دہشت گردی اور داعش کے خلاف جنگ میں ایران نے عراق میں کیا کردار ادا کیا؟
شیخ عمار الھلالی:  اسلامی جہوری ایران کے عراقیوں کابڑے پیمانے پر ساتھ دیا اور ان کی مدد کی، جب عراقی فورسز اور حشد الشعبی کو اسلحہ درکار تھا تو ایران نے بھرپور مدد کی۔ اس دور میں عراق کے دوست ممالک نے بھی عراق کو اسلحہ دینے سے انکار کیا۔ اس مشکل گھڑی میں ایران ہمارا ساتھ کھڑا رہا، اس موقع پر ایرانیوں نے حیدری غیرت دکھایی، علاوہ ازیں انہوں نے ہماری افرادی اور لاجسٹک مدد بھی کی۔  اور بہت سارے ایرانیوں نے عراق اور تشیع کے مذہب کا دفاع کرتے ہویے جام شہادت نوش کیا،  ہم تہ دل سے اسلامی جمہوری ایران کا شکریہ ادار کرتے ہیں۔ اللہ انہیں اس کا اجر عظیم دے۔ ا س کے علاوہ اگرقم اور نجف کے درمیان ہم آہنگی نہ ہوتی تو عراقیوں کو یہ کامیابی حاصل نہ ہوتی۔ جس کی بدولت عراق بھی باقی ہے اور عراق میں اسلام بھی باقی ہے۔ 

سوال: امریکی کھیل کے باعث عراق تاراج ہوا،، اس پر کیا کہیں گے؟
شیخ عمار الھلالی: خطے میں امریکہ کا کردار بہت پرانا ہے،  امریکہ اسراییل اور دیگر اسلام دشمن ممالک کی کوشش رہی ہے کہ اسلام پروان نہ چڑھ پایے اس مقصد کے لیے یہ ممالک مسلمان ممالک کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایسا نہیں ہوگا۔ اور ان ممالک کو ذلت اور رسوایی کا سامنا پڑیگا اور ان کے مقاصد کبھی پورے نہیں ہونگے، چونکہ اللہ تعالیٰ خود اس دین مبین کا محافظ ہے۔ اور وہ دور آیے جب امام زمانہ (عجل) کی حکومت قایم ہوگی اور دین میں امن کا بول بالا ہوگا۔ 

سوال:  مرجع عالی قدر آیت اللہ شیخ محمد یعقوبی کے جانب سے کیا پیغام دینا پسند کریں گے؟
شیخ عمار الھلالی:    میلاد النبی کی مناسبت سے آیت اللہ یعقوبی کا یہ پیغام ہے کہ مذہب پرستی اور تفرقہ بازی سے دور رہیں اور ایک دوسرے سے پیار محبت سے رہیں۔ اور دشمنوں کو اس کمزوری سے فایدہ اٹھانے نہ دیں۔ خواہ یہ مسلمان سنی ہوں یا شیعہ۔

سوال: وحدت کے لیے عراق کا کردار کیا ہوناچاہے؟
شیخ عمار الھلالی:  عراق کا وحدت اسلامی کے لیے اہم کردار ہونا چاہیے۔ عراق کا ایک اہم تاریخی اور ثقافتی کردار ہے۔ عراق میں جید علما موجود ہیں، جو ملک سے باہر وحدت اسلامی کی کانفرنسز میں بھی شرکت کرتے ہیں اور امت مسلمہ کے مسایل سے واقفیت رکھتے ہیں۔ عراقی علما اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مسلمان پیار و محبت سے رہیں اور ایک دوسرے کے اعتقادات کو محبت کی نگاہ سے دیکھیں۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری