مقبوضہ کشمیر: کرفیو کے پیچھے کی کہانی


مقبوضہ کشمیر: کرفیو کے پیچھے کی کہانی

5 اگست سے مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کر کے مودی حکومت عالم اسلام کی طرح ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی ہے۔

ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑی سلسلے کی سرزمین کشمیر 5 حصوں پر مشتمل ہے جس میں وادی کشمیر، جموں، لداخ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر شامل ہیں۔ ان میں سے پہلے 3 حصوں پر بھارت کا قبضہ ہے جبکہ باقی 2 پاکستان کے زیر انتظام آتے ہیں۔ وادی کشمیر، جموں اور لداخ پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کی یہ ہولناک داستان اگرچہ 7 دہائیوں پر مشتمل ہے تاہم پچھلے فقط 30 سالوں میں ایک لاکھ نہتے کشمیریوں کو شہید کیا گیا ہے۔

بےشمار کشمیری ایسے ہیں جن کو گھر گھر تلاشی کے دوران بنا کسی جرم کے گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا جا چکا ہے۔ مہینوں سالوں گزرنے کے باوجود ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔ ان کی بیویوں کو یہ تک نہیں معلوم کہ وہ سہاگن ہیں یا بیوہ، ان کے بچے یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کا باپ سلامت ہے یا وہ یتیم ہو گئے ہیں۔ بڑھاپے اور گھر کی دہلیز پر پر بیٹھی بوڑھی ماؤں کی منتظر آنکھیں تھک چکی ہیں۔ ہر روز طلوع آفتاب کے ساتھ اس ماں کی امید جاگتی ہے کہ شاید آج اس کا لخت جگر گھر لوٹ آئے اور ہرشام سورج کے ڈھلنے کے ساتھ ساتھ اس کی آس بھی دم توڑ جاتی ہے۔

ستم بالائے ستم یہ ہے کہ فوجی بوٹوں کی آوازوں سے کشمیری بیٹیاں دہل کر رہ جاتی ہیں۔ جلدی جلدی دروازے کھڑکیاں بند کر کے گھر کے سب سے اندرونی کمرے میں دبک جاتی ہیں لیکن ان کے گھر کے بوسیدہ دروازے بھارتی فوج کے بوٹوں اور بندوقوں کے دستوں سے زیادہ مضبوط نہیں۔ بھارتی فوجی جب چاہیں اور جس گھر میں چاہیں گھس جاتے ہیں، نہ ان کو کوئی روکنے والا ہے نہ پوچھنے والا۔ بھارتی فوج کی درندگی کی بھینٹ چڑھنے والی خواتین میں 7 سال کی بچی سے 70 سال تک کی بڑھیا شامل ہے اور ان آفت رسیدہ مظلوموں کی تعداد سینکڑوں میں نہیں ہزاروں میں ہے۔

مقبوضہ کشمیر کی یہ کہانی اسی طرح جاری تھی کہ 5 اگست 2019 کا سورج طلوع ہوا، جب مودی سرکار نے آرٹیکل 370 اور 35 ختم کر دیا جس کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم ہوگئی اور کشمیری عوام کے ردعمل کے پیش نظر مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔

ان قوانین کے خاتمے کے بعد فوج کی طرح بھارتی شہریوں کے ہاتھ بھی کھل گئے۔ اب چونکہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوگئی ہے لہذا پورے ہندوستان سے کوئی بھی بھارتی مقبوضہ کشمیر میں آ کر سکونت اختیار کر سکتا ہے۔ اس کو حق حاصل ہے کہ مقبوضہ وادی میں زمین خریدے، گھر بنائے یا کاروبار کرے اور اس کے لئے مودی حکومت اس کو وہاں کا ڈومیسائل بھی بنا کر دے رہی ہے اور بنیادی طور پر آرٹیکل 370 اور 35 کو ختم کرنے اور کرفیو نافذ کرنے کے پیچھے یہی بھیانک مقصد ہے، اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں ہندو آباد کاری۔

مقبوضہ وادی میں 70 فیصد مسلم اکثریت ہے لیکن مودی حکومت 5 اگست سے  عالم اسلام کی طرح ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی ہے بلکہ علاقے میں ہندو آباد کاری میں مشغول ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں دھڑا دھڑ ہندو منتقل ہو رہے ہیں جن کو فوری کی بنیادوں پر ڈومیسائل جاری کئے جا رہے ہیں لہذا کاغذات میں یہ ہندو کشمیری بن رہے ہیں اور اس طرح ایک دن مسلمانوں کی اکثریت، اقلیت میں بدل جائے گی، گو یہ کوئی آسان مرحلہ نہیں ہے اور اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے دنوں کی نہیں بلکہ مہینوں یا شاید سالوں کی مدت درکار ہو لیکن بھارت اس منصوبے کی بنیاد 5 اگست کو رکھ چکا ہے اور اس پر تیزی سے کام بھی کر رہا ہے اور پھر جب بھارتی ریکارڈ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں ہندووں کی اقلیت اکثریت میں تبدیل ہو جائے گی تو 7 دہائیوں میں ریفرینڈم کو ٹالنے والی بھارتی حکومت خوشی خوشی کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے پر بھی راضی ہو جائے گی۔

دوسری جانب پاکستانی حکومت بھی شاید اس صورتحال کو سمجھ رہی ہے، پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوھدری صاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ قوم مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے "شدید نقصان" کے لئے تیار رہے۔

تحریر: سید عدنان قمر جعفری

(ادارے کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)

 

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری