اسلامی جمہوریہ ایران کی دفاعی طاقت پر ایک نظر


اس وقت دفاعی لحاظ سے اسلام جمہوریہ ایران کا شمار دنیا کے اہم اور طاقتورترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ دنیا بھر کی طاقتور فوجوں کی فہرست جاری کرنے والی ویب سایٹ '' گلوبل فائر پاور'' کے مطابق ایرانی فوج دنیا کی 14ویں طاقتور ترین فوج ہے۔

تسنیم خبررساں ادارہ:

اس رینکنگ کے لئےدنیا کے مختلف ممالک کو 55 معیاروں پر پرکھا گیا ہے۔ ان میں فوجی وسائل، طبیعی وسائل، صنعت اور جغرافیائی حالات کے علاوہ انسانی طاقت کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ قارئین کی خدمت میں مزید تفصیلات پیش کی جارہی ہیں۔

افرادی قوت

اس میں کوئی شک نہیں ہے دفاعی لحاظ سے کسی بھی ملک کے لئے اہم ترین جزء افرادی قوت ہے۔

افرادی قوت کی خصوصیات

اعلی تربیت یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ وطن کے دفاع پر یقین رکھنا؛

 اگر کوئی قوم دفاعی جذبے سے سرشار ہوتو نہایت کم اسلحے کے ساتھ بھی بڑی سے بڑی طاقتوں کا بلا خوف و خطرمقابلہ کرسکتی ہے۔ جیسے کہ انقلاب اسلامی کے ابتدائی سالوں میں ایرانی قوم نے کردکھایا، دشمن جدید ترین اسلحے سے لیس ہونے کے باوجود ایرانی قوم کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوا۔

جذبہ شہادت سے سرشار ہونا؛

            جذبہ شہادت سے سرشار قوم کسی بھی طاغوتی طاقت کو بدترین اورذلت آمیزشکست سے دوچار کرسکتی ہے، جو انسان شہادت کا طلبگار ہوتا ہے وہ کبھی میدان جہاد سے راہ فرار اختیار نہیں کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران - عراق جنگ میں انقلابی جوانوں نے میدان جنگ کو شہادت کے درجے پر فائز ہونے تک نہیں چھوڑا اور آخرکار دشمن پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوا۔

مقامی سطح پر حربی وسائل تیار کرنے کا اصولی فیصلہ

 8 سالہ جنگ نے اسلامی جمہوریہ ایران کو بہت کچھ سکھایا جن میں سے ایک ملکی سطح پر دفاعی سازوسامان تیار کرنا ہے، جب پوری دنیا ایک طرف ہوئی اور ایران کے خلاف ہرقسم کا جدید ترین اسلحہ اس ملک کے دشمنوں کے حوالے کیا گیا تو ایرانی سائنسدانوں نے ملکی سطح پر دفاعی ضروریات پوری کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا جس کے ثمرات آج ایرانی قوم سمیت پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔

جدید ترین اسلحے کے کچھ نمونے

ہم یہاں پرمقامی سطح پر تیار ہونے والا جدید ترین اسلحہ کے کچھ نمونے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:                       

الف- بلیسٹک میزائل

دفاع مقدس کے آخری سالوں میں ایرانی سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلح افواج کو کسی بھی صورت میں بلیسٹک میزائل سے لیس کرنا ہی ہوگا؛ کیونکہ بلیسٹک میزائل لڑاکا طیاروں کے بہ نسبت زیادہ آسان اور مہلک ہتھیار کے طور پر سامنے آیا ہے۔

بلیسٹک میزائل اور لڑاکا طیاروں کا تقابلی جائزہ

بلیسٹک میزائل کئی حوالوں سے لڑاکا طیاروں سے بہتر سمجھا جاتا ہے:

1- ''سائنس اور ٹکنالوجی کے اعتبار سے'' بلیسٹک میزائل بنانا ہوائی جہاز کی بہ نسبت کہیں زیادہ آسان ہے؛

2- بلیسٹک میزائل کی حفاظت کرنا لڑاکا طیارے کےبہ نسبت کہیں زیادہ آسان اور سستا ہے؛

3- ہوائی اڈے کی تعمیر کی لاگت، میزائل گودام بنانے کی لاگت سے کہیں زیادہ ہے؛

4- ہوائی اڈے صرف کھلے میدانوں میں ہی بنائے جاسکتے ہیں جبکہ میزائل گودام پہاڑوں کے اندر بنا سکتے ہیں؛

5- دشمن لڑاکا طیارے کو آسانی سے نشانہ بنا سکتا ہے جبکہ میزائل کو نشانہ بنانا زیادہ مشکل کام ہے؛

6- لڑاکا طیارے کی قیمت بلیسٹک میزائل سے کہیں گنا زیادہ ہوتی ہے؛

7- میزائل کے ذرئعے دشمن کو بغیرجانی خطرے کے بہ آسانی نشانہ بنایا جاسکتا ہے؛ لیکن لڑاکا طیارے میں انسانی جان کو شدید خطرہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جہاز کو واپس لانے کے لئے ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے؛

8- لڑاکا طیارہ گرائے جانے کی صورت میں پائلٹ ہلاک یا گرفتار ہونے کا خدشہ ہوتا ہے؛

9- لڑاکا طیارہ اڑانے کے اخرات بہت زیادہ ہوتے ہیں جبکہ میزائل میں ایسا نہیں ہوتا؛

لڑاکا طیاروں کی خصوصیات

البتہ لڑاکا طیارے بھی بعض جہتوں سے میزائل سے بہتر کارکردگی دکھاتےہیں:

1 - ایک لڑاکا طیارے کو متعدد بار استعمال کیا جاسکتا ہے؛ جبکہ میزائل صرف ایک بار ہی قابل استعمال ہوتاہے؛

2- لڑاکا طیارے کو سالوں تک محفوظ کرکے رکھا جاسکتا ہے؛ جبکہ میزائل کچھ سالوں کے بعد ناکارہ ہوجاتا ہے؛

٣. لڑاکا طیارے دشمن کے ٹھکانوں کو پوری دقت کے ساتھ نشانہ بنا سکتے ہیں؛ جبکہ میزائل خطا کرسکتا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے سائنسدانوں نے ملکی سطح پر میزائل بنانے کا فیصلہ کیا اور آج اس ملک کی مسلح افواج دنیا کے جدیدترین میزائلوں سے لیس ہیں۔ اس وقت ایرانی مسلح افواج کے پاس سجیل، عماد، قدر، خرمشهر، قیام، ذوالفقار، فاتح، خلیج فارس اور هرمز نامی میزائل موجود ہیں جو دشمن کے جہازوں، ائرپورٹس، ڈرون طیارے، پل، سڑکیں، ریلوے رابطے  اور مختلف قسم کے حربی ساز وسامان تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

 ب- کروز میزائل

ایران میں مقامی سطح پر تیار کئے جانے والے تمام کروز میزائل سمندر اور خشکی سے دشمن کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس وقت ایران کے پاس مختلف قسم کے کروز میزائل ہیں جیسے قادر، ظفر، کوثر، نور، قدیر، نصرو، نصرِ بصیر اور سومار۔ ان میزائلوں کی خصوصیت یہ ہے کہ  یہ تمام میزائل گاڑی یا ابدوز سے چلائے جاسکتے ہیں۔

ج- ڈرون طیارے

ایران - عراق 8سالہ جنگ کے آخری سالوں میں اسلامی جمہوریہ ایران نے محدود پیمانے پر ڈرون طیارے استعمال کرنے کا آغاز کیا تھا اور اس وقت ملکی سطح پر مختلف قسم کے جدید ترین ڈرون طیارے تیار کئے جاچکے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کا سب سے بڑا ڈرون "فطرس" 25 ہزار فٹ کی بلندی پر 16 سے 30 گھنٹے تک پرواز کرسکتا ہے۔ یہ ڈرون 25 ہزار فٹ کی اونچائی تک با آسانی پرواز کرسکتا ہے اور اسے دو ہزار کلومیٹر کی رینج میں بغیر کسی رکاوٹ کے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ یہ ڈرون مختلف قسم کے گائیڈڈ راکٹ اور میزائل لے جانے اور انہیں فائر کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔

ڈرون طیاروں کی خصوصیات

1- ڈرون طیارے دوسرے لڑاکا طیاروں کی نسبت زیادہ سستے اور آسانی سے تیار کئے جاسکتے ہیں؛

2- ڈرون طیارے کی آواز جنگی جہاز کی بہ نسبت نہ ہونے کے برابر ہے؛

3- ڈرون طیارے بغیر پائلٹ کے چلائے جاتے ہیں؛

4- ڈرون طیارے کو نشانہ بنانا جنگی جہاز سے زیادہ مشکل ہوتا ہے؛

5-  کبھی کبھار ڈرون طیارے کو نشانہ بنانے والے میزائل کی قیمت خود ڈرون سے زیادہ ہوتی ہے۔

دنیا ایرانی ڈرون کی طاقت تسلیم کرچکی ہے۔ شام میں تکفیری دہشت گردوں کے خلاف ایرانی ڈرون طیاروں کی مختلف کارروائیاں، خلیج فارس میں امریکی بحری بیڑے کی تصویرکشی وغیرہ اس بات کی واضح دلیل ہے۔ 

اس وقت ایران کے پاس مختلف قسم کے جدید ترین ڈرون طیارے موجود ہیں جیسے: شاہد 129، ابابیل، مھاجر اور فطرس۔

د- ایران کا دفاعی نظام

اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے پاس مقامی سطح پر تیارکردہ بیک وقت متعدد اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے والا دفاعی نظام موجود ہے۔

ایرانی سائنسدانوں نے فضا سے فضا، زمین سے فضا، زمین سے زمین، سطح سمندر سے سمندر، ساحل سے سمندر اور سمندر کے اندر مار کرنے والے میزائلوں اور تارپیڈو کی طاقت اور توانائی میں زبردست اضافہ کیا ہے اور ایرانی مسلح افواج، ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے اپنی پوری توانائیاں بروئے کار لا رہی ہیں۔

اس وقت ایران کے پاس تین قسم کے دفاعی سسٹم موجود ہیں، کم اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والا اور زیادہ فاصلے تک مارکرنے والا دفاعی نظام۔ میثاق، یا زهرا، راپیر، تور-ام 1، سماوات، حائل، سعیر اور سراج نامی دفاعی نظام کم فاصلے تک مار کرنے والا سسٹم ہے اور سوم خرداد، طبس، شلمچه، مرصاد، تلاش اور صیاد درمیانے فاصلے تک مار کرسکتے ہیں جبکہ ''باور''  ایس 300 ایران کا دور فاصلے تک مار کرنے والا دفاعی سسٹم ہے۔ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایرانی دفاعی نظام ''باور 373''  کی صلاحیت روسی دفاعی نظام ایس-300 سے زیادہ ہے. یہ میزائل سسٹم 300 کلو میٹر دور سے حملوں کا پتہ لگانے، 250 کلومیٹر کے فاصلے پر حملے کو روکنے اور 200 کلو میٹر کے فاصلے پر ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ھ- ایرانی بحریہ

اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ، دفاعی وسائل کی تیاری، مختلف قسم کے جنگی بحری جہاز اور جنگی کشتیاں بنانے اور مختلف قسم کی چھوٹی بڑی آبدوزوں سمیت سمندری دفاع کے تمام دیگر وسائل کی تیاری میں پوری طرح خود کفیل ہے۔  ایرانی بحریہ نے اپنی آپریشنل گنجائش کو کافی حد تک بڑھایا ہے اور عالمی دہشت گردی، منشیات اسمگلنگ اور قزاقوں کے خطرے کا مقابلہ کرنے کی قومی اور بین الاقوامی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھا رہی ہے۔

 ایرانی بحریہ کے پاس جدیدترین آبدوزوں کے علاوہ لاتعداد چھوٹی جنگی کشتیاں بھی ہیں جو اپنے حریف کی نقل و حرکت کو انتہائی دشوار بنا دیتی ہیں۔ چھوٹی جنگی کشتیوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ریڈارمیں نہیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ایرانی بحریہ کی طاقت کو امریکا سمیت پوری دنیا قبول کرتی ہے۔

و- دوسرے اہم حربی سازوسامان

اسلامی جمہوریہ ایران کے سائنسدان مقامی سطح پر ڈرون اور دفاعی میزائل سسٹم کے علاوہ لڑکا طیارے، ہیلی کاپٹرز آبدوزیں، اور جدیدترین ٹینک بنانے کے منصوبے پر دن رات کام کررہے ہیں۔ قاھر، صاعقه اور کوثر نامی جنگی طیارے ملکی سطح پر تیار کئے جاچکے ہیں۔

 

ترتیب وپیشکش: غلام مرتضی جعفری