ہم کسی کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے: عمران خان


ہم کسی کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے: عمران خان

وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب ، ایران تنازعہ میں افغان جہاد سے زیادہ فرق نہیں ہے، 80 کی دہائی میں افغان جہاد ختم ہونے کے بعد امریکہ چلا گیا اور پاکستان کو شدت پسندوں کے حوالے کرگیا، اب ہم کسی کی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا ۔

تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان اب کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا بلکہ امن کا پارٹنر ہوگا، سعودی عرب اور ایران کے درمیان تنازعہ اور افغان جہاد میں فرق نہیں ہے، دونوں ممالک میں امن کی خاطر کوششیں کر رہے ہیں۔ افغان جہاد میں حصہ لینے کی وجہ سے ہماری معیشت کو نقصان پہنچا، افغان جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ چلا گیا اور ہمیں شدت پسندوں کے حوالے کرگیا، اس کے بعد پاکستان میں کلاشنکوف کلچر پروان چڑھا۔

انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد بھی پاکستان پر اثرات پڑے، پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہوا، ہم نے 70 ہزار جانوں کی قربانی دی، جب تک ملک میں امن واستحکام نہیں آتامعیشت ترقی نہیں کرسکتی۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے شاندار کام کیا اور ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ کیا، اس وقت ہمیں افغانستان میں امن و استحکام کی ضرورت ہے، اس وقت پاکستان میں جو بھی دہشتگردی ہورہی ہے وہ افغانستان سے ہورہی ہے۔ افغانستان میں امن آئے گا تو وسط ایشیا کے ساتھ تجارت بڑھے گی۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ آخر ممالک جنگ کے ذریعے ہی مسائل کیوں حل کرنا چاہتے ہیں، اگر ایران کا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ تنازعہ شروع ہوگیا تو یہ پاکستان کیلئے تباہ کن ہوگا، یہ ترقی پذیر ممالک کے بجٹ کا نظام خراب کردے گا کیونکہ اس سے ہر چیز کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان سٹریٹجک طور پر انتہائی اہم ترین ملک ہے جس کے ایک طرف تیزی سے ترقی کرتا ہوا چین ہے، دوسری طرف انرجی کے ذخائر سے بھرپور وسطی ایشیا ہے، جب بھی پاکستان اور انڈیا کے تعلقات بہتر ہوئے اور دونوں میں تجارت شروع ہوئی تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس کا کیا اثر ہوگا۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ نائن الیون کے بعد 2019 پاکستان کا محفوظ ترین سال تھا جس کی وجہ سے سیاحت کو فروغ ملا، پاکستان میں نہ صرف تاریخی بلکہ مذہبی سیاحت کے مواقع بھی موجود ہیں، یہاں 5 ہزار سال پرانی تہذیب کے ساتھ بہت سے مذاہب کے مقدس مقامات بھی موجود ہیں۔

اہم ترین ایران خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری