گلگت بلتستان کو ستر سال سے آرڈرز اور پیکیجز کے ذریعے چلایا جا رہا ہے، منتخب نمائندے


گلگت بلتستان کو ستر سال سے آرڈرز اور پیکیجز کے ذریعے چلایا جا رہا ہے، منتخب نمائندے

گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر حاجی فدا محمد ناشاد، اپوزیشن لیڈر کیپٹن(ر) شفیع، صوبائی وزیر ڈاکٹر محمد اقبال، رکن اسمبلی کاچو امتیاز حیدر، کیپٹن(ر) سکندر علی اور جاوید حسین نے اسلام آباد پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کو ستر سال سے آرڈرز اور پیکیجز کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔

تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، گلگت بلتستان کے منتخب نمائندوں نے کہا ہے کہ مجوزہ آرڈر 2020 ہمیں منظور نہیں ہے سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات یا سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا جائے ورنہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کو ستر سال سے آرڈرز اور پیکیجز کے ذریعے چلایا جا رہا ہے اور اسکو ہر سال نیا نام دیا جاتا ہے اس وقت آرڈر 2020 نافذ کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے ہم نہ آئین پاکستان کا حصہ ہیں نہ ہی اس علاقے کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور قراردادوں کے مطابق متنازعہ خطے کی مراعات اور حقوق دئیے جارہے ہیں ہم پاکستان میں رہتے ہوئے بھی قوامی  اداروں، آئینی و مالیاتی اداروں میں نمائندگی سے محروم ہیں جو کہ بین الاقوامی قوانین اور آئین پاکستان کی رو سے بنیادی انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے اور یوں ہم قربانی کا بکرا بنتے ہوئے آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں 1947 میں تھے۔

 

 انہوں نے کہا کہ ہر آنے والی حکومت کے سامنے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ کب حل ہو گا اورکب تک علاقے کے عوام گومگو کی حالت میں بے بس زندگی گزارتے رہیں گے؟ جواب میں ہمدردی کا اظہار کیا جاتا ہے تسلیاں دی جاتی ہیں کمیٹیاں بنتی ہیں سفارشات مرتب ہوتی ہیں مگر پھر کبھی مسئلہ کشمیر اور کبھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کا بہانہ بنا کر اس علاقے کو حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے قومی اسمبلی، سینٹ اور وفاقی کابینہ میں نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے گلگت بلتستان اور وفاق میں بننے والی حکومتوں کے درمیان ہمیشہ سے ایک خلا رہا ہے اب یہ خلا تشویشناک حد تک بڑھ چکا ہے جبکہ دوسری طرف عوام بلخصوص نوجوان نسل کے اندر حقوق کے لئے آگاہی رکھنے کی وجہ سے احساس محرومی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عوام کے اندر حقوق نہ ہونے کی وجہ سے شدید غم و غصّہ پایا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس مسئلے کے دو ہی حل ہیں اول یہ کہ گزشتہ دور حکومت میں سرتاج عزیز کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی کی سفارشات کو فوری طور پر من و عن نافذ کیا جائے یا دوسرا یہ کہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور قراردادوں کے مطابق اس علاقے کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے فوری طور پر تمام سہولیات اور مراعات دی جائیں جو کسی متنازعہ علاقے کو حاصل ہے ان دونوں قسم کے حقوق پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے 19 جنوری 2019 کو اپنے فیصلے میں مہر بھی ثبت کر دی ہے اور پاکستانی حکمرانوں کو پابند کیا ہے کہ وہ اس علاقے کے عوام کو فوری طور پر حقوق دے دیں اگر اس مسئلے کو فوری حل کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو ہمارے پاس ایک ہی آپشن بچتا ہے وہ یہ کہ ہم عوام کے پاس چلے جائیں اور عوامی طاقت سے اس مسئلے کو حل کرنے کی بھر پور کوشش کریں جس کے لئے ہم نے مرحلہ وار لائحہ عمل ترتیب دیا ہوا ہے جس کے تحت پہلے مرحلے میں پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ہر اتوار کو پریس کلبوں کے سامنے سنگل پوائنٹ ایجنڈہ یعنی آئینی حقوق کے لئے مظاہرے کیے جائیں اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے کے خلاف توہینِ عدالت کا کیس دائر کیا جائے گا اور آخری حربے کے طور پر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا جائے گا۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری