رہبرمعظم کا بیان بھارتی حکومت پر اثرانداز ہوگا، امام جمعہ دہلی


بھارتی دارالحکومت میں شیعہ جامع مسجد کے امام علامہ تقوی کا کہنا ہے کہ ہندوستان کا مسلمان سعودی عرب سے زیادہ پرامید نہیں ہے بھارتی مسلمانوں کو جنتی امید ایران سے ہے اتنی کسی دوسرے ملک سے نہیں۔

تسنیم نیوز کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے علامہ تقوی کا کہنا تھا کہ رہبرمعظم نے جن سخت الفاظ کے ساتھ بھارتی حکومت کو تنبیہ کی ہے وہ کارگربھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی تھی۔ رہبرمعظم نے اپنی رہبری اور دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کے مفاد میں جو بیان دیا ہے اس کا اثر حکومت کے اوپر میں مرتب ہوگا اور ہندوستانی عوام بھی اس کا پرجوش استقبال کریں گے۔

تسنیم: متنازعہ شہریت بل کے متعلق مسلمانوں کے درمیان کسی قسم کا کوئی اختلاف تو نہیں؟

علامہ تقوی: متنازعہ شہریت بل کے متعلق شیعہ سنی ایک پیچ پرہیں، برادارن اسلام اس بات پر متفق ہیں اور کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بھارت کی شیعہ قوم اپنے سنی بھائیوں کے ساتھ شابہ بشانہ اس تحریک میں شامل ہے۔ یہ متنازعہ قانون دونوں کو متاثر کررہا ہے، دونوں کے حقوق کو ضائع کرنے والا ہے۔ لہذا ہمارے درمیان کسی قسم کا کوٗئی اختلاف نہیں۔ متنازعہ قانون کے خلاف جاری احتجاجات میں شیعہ بھرپور حصہ لے رہے ہیں اور جاری رہے گا۔

تسنیم: مودی سرکار امریکا اور اسرائیل کے کہنے پر مسلمانوں کے خلاف کام کررہی ہے؟

علامہ تقوی: جب سے بی جے پی کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے ہندوستان کے روابط اسرائیل کے ساتھ مستحکم ہوئے ہیں، بلکہ نرسمہاراؤ ہندوستان کے وزیراعظم تھے، اس وقت اسرائیل کے ساتھ روابط قائم ہوئے تھے۔ لیکن روابط میں اتنی گرمجوشی نہیں تھی جب سے بی جے پی برسراقتدار آئی ہے اس کے بعد سے اسرائیل کے ساتھ بھارت کے بہت قریبی روابط ہیں۔

جہاں تک امریکا کا سوال ہے، بھارت کے امریکا سے تعلقات موجودہ حکومت سے پہلے بھی قائم تھے لیکن موجودہ حکومت امریکی حکام کے سامنے مکمل طورپرگٹھنے ٹیک چکی ہے اور امریکا کے اشاروں اور دباو میں بھارت سرکار کام کررہی ہے۔

تسنیم: امریکی صدر کے دورہ بھارت کے بعد مسلم کش فسادات میں شدت آئی، کیا حکومت امریکی اشاروں پر یہ سب کررہی ہے؟

علامہ تقوی: شہریت قانون کے متعلق احتجاجات پہلے سے چل رہے تھے، دوماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے۔ امریکی صدر کا دورہ ہندوستان ظاہرا اس قانون سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ بھارت کی پہلے سے سوچی سمجھی ہوئی سازش ہے اور اس طرح کی باتیں بی جے پی بہت عرصے سے کرتی رہی ہے، اب سے 20 سال پہلے سے اس طرح کی آوازیں تھیں، کہ بنگلادیش سے آنے والے افراد جو سنہ 71 کی جنگ کے بعد اور جنگ کے دوران آئے ہیں، ان میں سے ہندوں کو شہریت دے دی جائے اور مسلمانوں کو بنگلادیش واپس کیا جائے یہ بات وہ بہت پہلے سے کہہ رہے تھے، لہذا اس سلسلے میں کسی دوسرے ملک کا کوئی رول نہیں ہے۔ ہاں یہ بات طے ہے کہ مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے والی ہربات کی اسرائیل اور امریکا حمایت کرتے ہیں۔

تسنیم: بھارتی مسلمان سعودی عرب سے نا امید کیوں ہیں؟

علامہ تقوی: جہاں تک مسلم ممالک کا تعلق ہے ہندوستان کا مسلمان سعودی عرب سے زیادہ پرامید نہیں ہے، عام تاثر لوگوں کے اذھان میں یہی ہے کہ سعودی عرب امریکا سے الگ ہٹ کر کوئی پالیسی وضع نہیں کرسکتا، لیکن سی اے اے کے سلسلے میں او آئی سی نے جواسٹینڈ لیا اور اس قانون کی مذمت کی تو یہاں براداران اہل سنت میں اس چیز کا خیرمقدم کیا گیا۔ لیکن بھارتی مسلمانوں کو جنتی امید ایران سے ہے  اتنی کسی دوسرے ملک سے نہیں ہے۔

تسنیم: بھارتی مسلمان ایران سے پرامید کیوں ہیں؟

علامہ تقوی: ایران کے وزارت خارجہ نے جو بیان دیا اس کا حکومت نے بھلے ہی کوئی زیادہ اثر نہ لیا ہولیکن یہاں کے تمام مسلمان اس بیان سے خوش ہوئے ہیں۔ رہبرمعظم نے جن سخت الفاظ کے ساتھ بھارتی حکومت کو تنبیہ کی ہے وہ کارگربھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی تھی۔ رہبرمعظم نے اپنی رہبری اور دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کے مفاد میں جو بیان دیا ہے اس کا اثر حکومت کے اوپر میں مرتب ہوگا اور ہندوستانی عوام بھی اس کا پرجوش استقبال کریں گے۔

تسنیم: مسلمانوں کے متعلق بی جے پی کے کیا خیالات ہیں؟

علامہ تقوی: ہندوستان میں موجودہ حکومت یعنی بی جے پی ہمیشہ مسلمانوں کے سلسلے میں اچھے خیالات نہیں رہے، بلکہ ایک دور ایسا تھا یعنی اب سے 20 ، 25 سال پہلے بی جے پی کی یہاں کوئی حیثیت نہیں تھی۔ پارلیمنٹ کے اندر صرف دو سیٹیں تھی، بی جے پی کے گمراہ کن نعروں اور فریب کاریوں میں بہت سے مسلمان مبتلا ہوگئے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ بی جے پی جیسا کہ تصور کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے وہ ہمارے لئے اتنی بری ثابت نہیں ہوگی۔ یہ غلط فہمی تھی کہ جومودی کی حکومت آنے کے بعد مسلمانوں کو حقیقت کا علم ہوا ہے۔

جہاں تک فسادات کو روکنے کا تعلق ہے، ہم اپنی دانشوری اور دانشمندی کے ذریعے فسادات کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں نفرت کی فضا کو روکنا ہوگا، ہمارے قائدین کو چاہئے کہ  اپنی زبان صاف رکھیں اور احسن طریقے سے جدال کریں اور اپنے حقوق بات چیت کے ذریعے لینے کی کوشش کریں۔

تسنیم: کیا ہندوستان کے سارے ہندو مسلمانوں کے مخالف ہیں؟

علامہ تقوی: ہمارا مخالف ہندو نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کا مخالف ہندوستان میں ایک ہندو سیاسی گروپ ہے، ایک سیاسی حلقہ ہے، جو مسلمانوں کا دشمن ہے۔ بھارت میں عام ہندو پوری طرح سے فرقہ پرست نہیں ہے۔

ملک میں فضا کو خراب کرنے میں بعض مسلم سیاستدانو کا بھی اچھا خاصا رول ہے جو نہیں ہونا چاہئے، بعض مسلم سیاستدانوں نے جس طرح کی زبان استعمال کی اس ایک غلط اثر ہنود پر پڑا اور ہنود نے ان بیانات کی وجہ سے مسلمانوں سے مخاصمت کا آغاز کیا۔ اگر ہم دانشمندی سے کام لیں تو بی جے پی کو شکست دے سکتے ہیں اور کسی بھی میدان میں بی جے پی اپنے آپ کو نہیں سنبھال پائے گی۔

تسنیم: ہندوستانی مسلمان ایران سے کیا توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں؟

علامہ تقوی: ہندوستان کے مسلمان کو اسلامی جہموریہ ایران سے بہت سے توقعات وابستہ ہیں، ایران نے شہریت بل اور مسلمانوں پر مظالم کے خلاف  صحیح موقع پر بھارتی حکومت کو منتبہ کرنے کا کام جو انجام دیا ہے۔ اس بات کو ہمارے اہل سنت بھائی بھی محسوس کررہے ہیں، اور شیعوں کے اندر تو یہ بات پہلے سے واضح ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی تمام مسلمانوں نے بغیرکسی اختلاف کے خیرمقدم اورتائید کی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو علم ہے کہ اسلامی مفاد کو دیکھ اپنا موقف بیان کرنے والی حکومت اگر مسلم حکومتوں میں کوئی ہے تو وہ صرف ایران ہی ہے جو امت مسلمہ کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا موقف پیش کرتا ہے۔ لہذا براداران اسلام کے ایران کے بارے میں جوتوقعات ہیں وہ بے جا نہیں ہیں۔

صرف گنے چنے افراد جن میں بعض علما بھی شامل ہیں انہوں نے ان بیانات سے بیزاری کا اظہار کیا ہے یہ ان کی اپنی سیاسی مصلحت ہوسکتی ہے۔

تسنیم: کیا مودی سرکارمتنازعہ قانون لاگو کرسکے گی؟

علامہ تقوی: پارلیمنٹ میں بی پی جے اراکین کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے قانون پاس تو ہوگیا ہے لیکن عملی طور پر اس قانون کولاگو کرنا بی جے پی کے لئے اتنا آسان نہیں۔

ریاست آسام میں غیرملکی افراد کی تشخیص کا مرحلہ شروع ہونے پہلے کہا جارہا تھا کہ بنگلادیش کے دو کروڑ مسلمان بھارت میں موجود ہیں ان میں سے ایک کروڑ آسام میں ہیں۔ ان کے تمام کے تمام آرا باطل ہوئے اور آسام میں صرف 19لاکھ افراد اپنے آپ کو بھارتی شہری ثابت نہ کرسکے۔

ان میں ہزاروں ہندو بھی ایسے ہیں جو اپنے آپ کو بھارتی شہری ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ اگر یہ قانون پورے بھارت میں لاگو ہوگا تو کم سے کم 15 کروڑ عوام اپنے آپ کو ہندوستانی شہری ثابت کرنے میں ناکام ہوں گے۔ اس کے علاوہ حکومت کے پاس اتنا پیسہ بھی نہیں ہے کہ وہ یہ سب کرسکے۔ صرف آسام میں سولہ سو کروڑ روپیہ خرچ ہوا ہے تو پورے ملک میں کتنے پیسے درکار ہوں گے۔

اس قانون سے نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو بھی متاثر ہوگا خاص کر وہ لوگ جو جنگلات میں رہتے ہیں۔ ہندوستان کے تمام دانشوروں کا یہ خیال ہے کہ یہ قانون پورے ملک کے لئے خطرناک ثابت ہوگا اور ممکن ہے کہ حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جائیں۔