گر ملی مُہلتِ حیات۔۔۔


گر ملی مُہلتِ حیات۔۔۔

جب تک منزل نہ پا لو تو ہمت نہ ہارو۔ 

تسنیم خبررساں ادارہ: سفر کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو جاری رکھو جیسے پہاڑوں سے نکلنے والے دریاؤں نے آج تک راستے میں کسی سے نہیں پوچھا کہ سمندر کتنا دور ہے۔
زندگی عارضی اور نشیب و فراز سے گزر کر آزمائشوں کا نام ہے اسی لیے عُروج ملنے پر انسان خدا نہ بن جائے اللہ کریم نے زوال رکھا ہے ۔ "ہر کمال را زوال ہر زوال را کمال "۔ مگر افسوس زمین عقل مندوں سے تو بھر گئی مگر دردمندوں سے خالی ہے؛ بلکہ دنیا میں زندہ لوگ کم اور چلتی پھرتی لاشیں زیادہ ہیں اور جو با ضمیر ہیں جن کے دل زندہ ہیں انھیں دنیا جینے کا حق دینے کو تیار نہیں ہے اس لیے وہ ہر وقت ایک تلخ آزمائش سے گزررہے ہوتے ہیں اور اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتے ۔ حضرت علی علیہ السلام کا فرمان بھی انہیں لوگوں کیلئے ہے کہ "جب کوئی تمہارا دل دُکھائے تو ناراض مت ہوناکیوں کہ قدرت کا قانون ہے کہ جس درخت کا پھل زیادہ میٹھا ہوتا ہے لوگ پتھر بھی اسی کو مارتے ہیں ۔"
زندگی کی تلخیاں برداشت کرتے کرتے محبت کرنے والوں کے مزاج اور انداز بدل جاتے ہیں اور ویسے بھی انسان سخت مزاج اس وقت بنتا ہے جب اس کی نرم مزاجی کا بہت سارے لوگ فائدہ اُٹھا چکے ہوتے ہیں۔ بیشک ہمیں اللہ کریم نے درگزر کا حکم دیا ہے؛ مگر انسان ابلیس کی پیروکاری میں اتنا آگے نکل چکا ہوتا ہے کہ وہ بدلہ لینے کیلئے بے قرار رہتا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں سے چشم پوشی کر کے فرعونیت کو تقویت دے کر خوش ہوتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ ایک مٹی کے ذرّے کی اوقات کیا ہے حالانکہ :۔
آج دنیا میں ہر طرف افراتفری کا عالم ہے کبھی کبھی لگتا ہے کہ دنیا بے حسّی کے راستے پر بڑی بے باکی سے گزر کر اپنے منطقی انجام تک جا رہی ہے۔ ہر لیول پر اپنے مفادات کی جنگ ہے حلال و حرام کی تمیز ختم ہو گئی ہے اپنے ٹارگٹ کو پانے کیلئے دنیا اشرف المخلوقات کا خون بہا رہی ہے۔
 اللہ کے عذاب سے گزر کر بھی اپنی غلطیوں پر معافی مانگنے کو تیار نہیں ہے۔  کبھی کبھی افلاطون کی بات سن کر سانس رُک جاتا ہے وہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ : "قانون سب کیلئے برابر ہے یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے ۔ قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں کیڑے مکوڑے پھنستے ہیں مگر بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں ۔"
پاکستان کی تقدیر کے ساتھ عجیب مذاق ہوتا آرہا ہے پاکستان کی روح پر انتہائی بے دردی سے گہرے زخم لگانے والے غیر نہیں ہمارے اپنے ہیں اب پاکستان کی زخمی روح پر مرہم رکھنے کا قطعی آخری موقع آگیا ہے۔ اس وقت تیزاب سے غُسل دے کر بھی پاکستان کو بچا لیا جائے تو سودا مہنگا نہیں ہے۔ اب کسی صورت بھی کسی سے بلیک میل ہونا پاکستان کو مزید زخمی کرنے کے مترادف ہے۔ تاریخ میں مافیاز پیدا ہوتے رہتے ہیں اور اپنے انجام کو پہنچنا بہر حال ان کا مقدر ہوتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں بہت سے مافیاز ہیں جن کو اگر شمار کرناشروع کریں تو ہر شعبے کو شیش ناگوں کی طرح اپنی گرفت میں لیے ہوئے اپنے زہر سے سب کو بھسم کر دینے کی دھمکیاں دیتے نظر آئیں گے۔
سیاست کے اند مافیاز نے ملک کو بے دردی سے لوٹ کر کنگال کر دیا ہے۔قومی دولت کے کھربوں لوٹ کر وکٹری کا نشان بناتے ہیں اور میرے جیسے ان پر گلاب نچھاور کرتے نظر آتے ہیں۔
جب تک کرپٹ سیاستدانوں پر گلاب نچھاور ہوتا رہے گا ان مافیاز کو ختم کرنا ناممکن ہے۔ ایجوکیشن سیلرز پاکستان میں حکومت سے زیادہ طاقتور ہیں ۔ ہیلتھ مافیاز بھی بڑی دیدہ دلیری سے اپنا کام کر رہے ہیں ۔ آٹا چینی مافیاز کا اپنا انداز ہے جو اپوزیشن اور حکومت میں بیک وقت وافر مقدار میں موجود ہیں ۔ لینڈ مافیاز کا اپنا منفرد اندازِ بے ایمانہ ہے ۔
جو ہر چیز کو خریدنے کی طاقت رکھتے ہیں پاکستان کو لوٹتے ہیں اور گھُورتے بھی ہیں قانون ان کے سامنے موم کی ناک ہے ۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کے ساتھ مافیاز کی بھی بھرمار ہے پاکستانی قوم کے ذہنوں میں بہر حال ایک سوال بے تابی سے جواب کا منتظر ہے کہ کیا قائد ؒ اور اقبالؒ کے پاکستان کا مقدر اتنا بھیانک ہے کہ جہاں کرپٹ اور کریمینل کا اقتدار میں آنا لازمی جز ہے۔

پاکستان کے ذمہ داران کو اب بہت بڑے فیصلے کرنا ہیں یہاں تک بھی کہ کیا پاکستا ن میں جمہوریت چل بھی سکتی ہے یا نہیں پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان کہیں جمہوری لوگوں نے تو نہیں پہنچایا۔

مُلک کو بے دردی سے لوٹنے والوں کے سامنے کبھی کبھی ادارے بھی بے بس نظر آتے ہیں اور کچھ کالی بھیڑیں کالے کرتُوت والوں کی خفیہ طور پر مدد کر کے پاکستان کے ساتھ دھوکہ دہی کی مرتکب ہوتی ہیں اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کبھی بے نقاب نہیں ہوں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے حساب ان کا بھی ہوگا انتظار فرمائیں ۔ پاکستان سے محبت کرنے والوں کے ہاتھ ان کے گریبان تک ضرور جائیں گے ۔ چیئر مین سینٹ کے عدم اعتماد کے موقع پر خفیہ طور پر اپنے سینیٹرز سے چند ووٹ دلوا کر وزیرِ اعظم بننے کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی ۔ اب پاکستان کے بہترین مفاد میں ایسی سودا بازیوں سے گریز کرنا ہوگا اگر ان پر دوبارہ اعتماد کیا گیا تو یقین جانیں یہ اداروں کیسا تھ وہ کریں گے جو ہندوستان میں مودی مسلمانوں کے ساتھ کر رہا ہے۔

پاکستانی قو م پریشان ہے کہ چار چیزیں زندہ ہیں مگر نظر نہیں آتیں ۔ ایک کرونا، دوسرا بھٹو ، تیسری میاں صاحبان کی بیماری اور چوتھی حکومتی کار کردگی ۔ پاکستان میں غیر مُسلم قوتیںبڑی پلاننگ سے ہمارے سلیبس میں ہمارے اسلامی عقائد کو بھی مسخ کرنے کی سازش کر رہی ہیں ۔ پہلے جہاد کو ہمارے نظامِ تعلیم سے نکالا اور اب دوبارہ کچھ کتابوں کے اند صحابہ کرام ؓکی شان میں گستاخی کرنے کی مذموم کوشش پکڑی گئی مگر اللہ کریم نے حافظ عمار یاسر وزیر پنجاب حکومت اور چوہدری پرویز الٰہی سپیکر پنجاب اسمبلی اور پوری پنجاب اسمبلی سے کام لیا اور اس سازش کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا ۔ بہت خوب حافظ عمار یاسر اور ویلڈن چوہدری پرویز الٰہی آپ نے اپنی دنیا اور آخرت سنوار لی ۔ اللہ کریم اور حبیب خداﷺ آپ پر راضی ہوگئے قوم آپ کے ساتھ ہے ۔

میرے خاندان کی پاکستان کیلئے بہت قربانیاں ہیں میرے بزرگوں کا خون ہے پاکستان کی بنیادوں میں مگر آج پاکستان میں جب نا اہلی کی داستان جنم لیتی ہے تو بہت افسوس ہوتا ہے ۔ بہت سے ایسے چہرے پاکستان میں اپنا رول ادا کر رہے ہیں جو پاکستان میں بالکل اجنبی ہیں پتہ نہیں کیا ہو رہا ہے ۔

بحیثیت مسلمان، پاکستانی اور سیاسی کارکن ہونے کے ناطے نااہلیوں پر تکلیف بھی ہوتی ہے ۔ ہر وقت اچھی پلاننگ کے ساتھ پاکستان کے گہرے زخموں پر مرہم رکھنے کا تصور اور سوچ رہتی ہے ۔ پاکستان نے میرے جیسے انسان کو فلیگ کیرئیر بنا دیا یہ احسان نہیں اُتار سکتے مگر انشاء اللہ اپنے حصے کی شمع ضرور روشن کریں گے ۔ پاکستان سے محبت کرنے والوں کے ساتھ مل کر انشاء اللہ ۔

گر ملی مُہلتِ حیات تو بحرِظُلمت میں چراغ بانٹیں گے اور بے حساب بانٹیں گے

تحریر: چودھری عبدالغفورخان

 

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری