پاکستان کو رواں ماہ گرے لسٹ سے نکالنے سے کا امکان


ایف اے ٹی ایف رواں ماہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے سے متعلق فیصلہ کرے گا

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) پلانری کا ورچوئل اجلاس 21 سے 23 اکتوبر تک ہوگا جس میں اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا کہ کیا پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنا چاہیے۔

مزید یہ کہ اس کا فیصلہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی تعاون(ایم ایل اور ٹی ایف) کے خلاف عالمی وعدوں اور معیار تک پہنچنے کے لیے اسلام آباد کی کارکردگی کا جائزہ لے کر کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ ایف اے ٹی ایف پلانری اجلاس جون میں ہونا تھا لیکن عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث پیش آنے والے صحت کے سنگین معاملات کی باعث مالیاتی جرائم کی روک تھام کے عالمی ادارے نے تمام جائزے اور ڈیڈلائنز عارضی طور پر ملتوی کردی تھیں جس سے اسلام آباد کو سانس لینے کا موقع ملا تھا۔

پیرس سے تعلق رکھنے والی اس تنظیم نے جائزے کے عمل کو بھی عمومی طور پر روک دیا تھا جس سے پاکستان کو ایف اے ٹی یف کی شرائط پر پورا اترنے کے لیے مزید 4 ماہ کا وقت مل گیا تھا۔

یاد رہے کہ فروری میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کی جانب سے ایم ایل اور ٹی ایف کے خلاف 27 نکاتی پلان میں سے 14 نکات پر عمل اور 13 رہ جانے کی وجہ سے مکمل پلان پر عملدرآمد کے لیے 4 ماہ کا اضافی وقت دیا تھا۔

28 جولائی کو حکومت نے پارلیمان کو بتایا تھا کہ 27 نکاتی ایکشن پلان میں سے 14 نکات اور ایف اے ٹی ایف کی 40 میں سے 10 تجاویز پر عملدرآمد کرلیا گیا ہے۔

تاہم 16 ستمبر کو ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایف اے ٹی کی شرائط کے مطابق قانونی نظام کو عالمی معیار کی سطح پر لانے کے لیے 15 قوانین میں ترمیم کی گئی۔

حکومت ایف اے ٹی ایف اور اس سے منسلک جائزاتی گروہ کو 13 بقایا نکات پر تعمیل کی تفصیل جمع کرواچکی اور ان کے تبصروں پر جواب بھی دے چکی۔

بہتر قانون سازی کی بنیاد پر حکام کو توقع ہے کہ ورچوئل اجلاس میں پاکستان کو اگر گرے لسٹ سےباضابطہ اخراج نہ بھی ملے تو کم از کم 10 نکات پر بڑی حد تک عمل درآمد کرنے والا کہا جائے گا تاہم یہ اب ایف اے ٹی ایف کے جائزے پر منحصر ہے۔

فروری میں ایف اے ٹی ایف نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان کو 27 نکاتی ایکشن پلان پر عمل کے لیے دی گئی تمام ڈیڈ لائنز گزر چکی ہیں اور صرف 14 نکات پر بڑی حد تک مکمل عملدرآمد ہوا جبکہ 13 اہداف نا مکمل تھے۔