سعودی جارحیت سے یمنیوں کو خطرناک قحط کا سامنا ہے، انسانی حقوق


سعودی جارحیت سے یمنیوں کو خطرناک قحط کا سامنا ہے، انسانی حقوق

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ دنیا کے بدترین انسانی حقوق کے بحران کا سامنا کرنے والے ملک یمن میں قحط کے خلاف جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

تسنیم خبررساں ادارے نے  'اے پی' کے حوالے سے بتایا ہے کہ انسانی حقوق کے سبراہ مارک لوکوک نے موجودہ صورتحال کو ’بدترین‘ قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ حالیہ ہفتوں کی صورتحال خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ملک بھر میں پھیلتے قحط کے نتیجے میں بڑی تعداد میں زندگیوں کے نقصان کو روکنا ناممکن ہے لہٰذا اب ہمیں ایک نقطہ آغاز پر پہنچنا چاہیے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پہلے ہی قحط کی ایسی صورتحال دیکھ رہے ہیں جہاں لوگ پتے تک کھا رہے ہیں‘۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’ڈرامائی طور پر معیشت کی تباہی‘ کے نتیجے میں یمن کی کرنسی کی قیمت 30 فیصد تک کم ہونا اور بحیرہ احمر کی حدیدیہ بندرگاہ کے ارد گرد جاری لڑائی میں تیزی آنا دونوں ایسے واقعات ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ امدادی سرگرمیوں کو مغلوب کرنے کی دھمکی ہے۔

خیال رہے کہ حدیدیہ بندرگارہ خوراک، ادویات اور دیگر ضروری سامان کی فراہمی کے لیے اہم بندرگاہ ہے۔

مارک لوکوک کا مزید کہنا تھا کہ رواں سال کے ابتدائی 6 ماہ میں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے گروہوں نے 80 لاکھ سے زائد یمن کے شہریوں کو امداد فراہم کی اور ان میں سے زیادہ تر ایسے تھے، جنہیں یہ تک نہیں معلوم تھا کہ ان کی اگلی غذا کہاں سے آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ تر یمنی بیرونی خوراک پرانحصار کرتے ہیں اور کرنسی کی صورتحال نے 10 لاکھ کے قریب شہریوں کے لیے خوراک کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کردیا، جس کی وجہ سے امدادی سرگرمیوں کا حصہ نہ ہونے والے یمنی مقررہ مقدار میں خوراک نہیں حاصل کرسکے۔

انہوں نے کہا کہ یمن کی صورتحال کے باعث ایندھن کی قیمتوں میں بھی ’ بے پناہ‘ اضافہ دیکھنے میں آیا۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ ہفتوں میں حدیدیہ کے اطراف بڑھتی ہوئی جنگ نے ضرورت مندوں کے لیے ’زندگی کا راستہ‘ روک دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں کی لڑائی میں حدیدیہ سے صنعا جانے والا زمینی راستہ منقطع ہوگیا ہے جبکہ یہ راستہ تجارتی درآمد کنندگان اور امدادی گروہوں کے لیے امداد فراہم کرنے کا مرکزی راستہ تھاُ۔

انسانی حقوق کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’ ہم نے اندازہ لگایا ہے کہ تقریباً 35 لاکھ اضافی لوگ خوراک سے محروم 80 لاکھ افراد میں شامل ہوسکتے ہیں‘۔

مارک لوکوک نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ اپنی امدادی سرگرمیوں کو بڑھائے تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیم 2 کروڑ 90 لاکھ یمنی شہریوں کی تمام ضروریات پوری کرسکے۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے افسران کے مطابق یمن میں سعودی جارحیت سے گزشتہ 3 برس میں تقریباً ہزاروں شہری شہید یا زخمی ہوچکے ہیں۔

تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی اتحادی افواج نے ایسے جھگوں کو نشانہ بنایا جہاں کسی قسم کا کوئی عسکری خطرہ بھی نہیں تھا۔

یاد رہے کہ سعودی عرب نے امریکا اور اسرائیل کی حمایت سے اور اتحادی ملکوں کے ساتھ مل کر چھبیس مارچ دوہزار پندرہ سے یمن پر وحشیانہ جارحیتوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری