پنجاب بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن؛ کرپشن، بد انتظامی اور بے حسی کی دکھ بھری داستان


پنجاب بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن؛ کرپشن، بد انتظامی اور بے حسی کی دکھ بھری داستان

پاکستان میں موجود مسائل کی نشاندہی ایک ایسا دلخراش معاملہ ہے جو کہ تمام پاکستانی قارئین کے ساتھ ہی ساتھ میرے لئے بھی باعث شرمندگی و تکلیف ہے لیکن سچائہ تو سچائی ہی ہوتی ہے خواہ اسکا چہرہ کتنا ہی بھدا اور ڈراؤنا کیوں نہ ہو.

پاکستانی تجزیہ کار مسعود چوہدری نے اپنے کالم میں حکومتی اداروں میں کرپشن، بد انتظامی اور بے حسی کو ایک دکھ بھری داستان قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایسے مسائل کی وجہ سے تمام عوام کو شرمندگی اور بے حد تکلیف ہوتی ہے۔

انہوں نے اپنے مقالے کو کچھ یوں ترتیب دیا ہے؛

مجھےچھوٹی بہن کی میٹرک کی سند پر ایک دن کی تاریخی غلطی جسے ہم معاف کرنے کی خاطر کلیریکل مسٹیک یعنی انسانی غلطی بھی کہہ سکتے ہیں کی درستگی کی پاداش میں جس تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑا ہے اور مجبوراً روپیہ اور تعلقات کے استعمال پر مجبور کئے جانے کے باوجود جس کرب سے گزارا گیا ہے وہ میرے ذہن میں پہلے سے موجود کئی ایک سوالات کو تو ہوا دیتا ہی ہے لیکن ہمارے پیارے پاکستان کے پیارے صوبہ پنجاب کے تعلیمی معاملات پر کئے جانے والے بلند و بانگ حکومتی دعووں اور حکومتی گڈ گورننس کی قلعی بھی کھول کر رکھ رہا ہے.

میں کم ترین الفاظ میں معاملہ بیان کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور قصداً اصلی ناموں کی بجائے فرضی نام استعمال کر رہا ہوں تاکہ ذاتیات کی بجائے اصل مسائل کی نشاندہی ہو سک۔

والدہ محترمہ ایچ ای سی سے چھوٹی بہن کے کاغذات کی تصدیق کے سلسلے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن گئیں تو معلوم ہوا کہ کاغذات کی تصدیق میٹرک کی سند اور شناختی کارڈ پر موجود تاریخ پیدائش کے ایک دن کے فرق کے باعث نہیں ہو سکتی. والدہ نے یہ معاملہ میرے حوالے کیا اور حکم صادر فرمایا کہ جلد از جلد کاغذات کو ٹھیک کرواؤں. جلدی اس بات کی تھی کہ چھوٹی بہن جو کہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے نمایاں پوزیشن کے ساتھ فارغ التحصیل کیمیکل انجینئر ہے، کا داخلہ جرمنی کی ایک اعلیٰ اور مشہور جامعہ میں پروسیس انجینئرنگ میں اعلیٰ تعلیم کے لئے ہو گیا تھا اور جرمن ایمبیسی سے ویزہ لگوانے کے لئے تاریخ لی جا چکی تھی.

اب راستے دو تھے. پہلا تو یہ کہ شناختی کارڈ کی تاریخ پیدائش کو تبدیل کرواتا. اس میں مسائل دو تھے ایک تو یہ تھا کہ جس طرح ہمارے پیارے بھائی جان محمد نظیر صاحب جن کا شناختی کارڈ ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ان تک نہیں پہنچا اور جن کا سلپ سیریل نمبر 002349908 ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا اور دوسرا یہ کہ اگر خدا نخواستہ نادرا کچھ تیزی دکھا بھی دیتا جس کی اس سے توقع تو بہت کم ہے تو ایف ایس سی، بی ایس سی، پاسپورٹ اور جرمن جامعہ کی داخلہ رسید سب پر اصلی تاریخ پیدائش درج تھی. ان سب کو بھی تبدیل کروانا پڑنا تھا جو کہ نہر فرہاد کھودنے سے زیادہ کٹھن کام تھا. سو میں نے دوسرا اور نسبتأ آسان دکھائی دینے والا راستہ اختیار کیا اور بورڈ آفس یعنی بورڈ آف انٹرمیڈئٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کی راہ لی.

بورڈ آفس سے معلوم ہوا کہ برتھ سرٹیفکیٹ یعنی پیدائش پرچی اور ہائی سکول کا ریکارڈ لے کر آئیں. جناب خادم دونوں چیزیں لے کر پہنچ گیا تو کنٹرولر صاحب نے نشاندہی کی کہ یہ لیٹ اندراج کے ساتھ پیدائشی پرچی ہے جبکہ ہمیں نارمل اندراج کے ساتھ پیدائشی پرچی درکار ہے. میرا سوال تھا کہ اگر نارمل اندراج کے ساتھ پیدائشی پرچی دستیاب نہیں ہوتی تو دوسرا راستہ کیا ہو سکتا ہے؟ اس سوال پر صاحب اور ان کے ساتھ موجود عملہ جو کہ پوری موج کے ساتھ کھڑکی کنارے بیٹھے چائے اور سگریٹ سے لطف اندوز ہو رہے تھے بھڑک اٹھے! کاغذات زمین پر دے مارے اور فرماتے ہیں کہ عدالت جاؤ! تاریخ تو پھر کسی صورت تبدیل نہیں ہو سکتی.

عدالت سے ہمیں انصاف ملنے کی توقع تو تھی لیکن اس میں شاید ایک یا دو سال کا وقت لگ جاتا اور جیسے بیان کر چکا ہوں کہ وقت کی قلت بہر حال پیش نظر تھی. کنٹرولر صاحب کے رویہ سے دلبرداشتہ میں بورڈ آفس کی تیسری منزل کی سیڑھیاں اتر ہی رہا تھا کہ ایک صاحب جو کنٹرولر صاحب کے ساتھ خوش گپیوں میں مشغول تھے میرے پیچھے پیچھے آئے اور سیڑھیوں میں میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے روک لیا. ان صاحب کا کہنا تھا کہ اگر ایک لاکھ دس ہزار روپے انہیں ادا کرنے کا وعدہ کیا جائے تو وہ یہ کام دو ہفتوں میں کروا سکتے ہیں۔

میں بورڈ آفس سے نکلا اور سیدھا فاطمہ میموریل ہسپتال گیا جہاں بہن کی پیدائش ہوئی تھی. کیا زبردست سسٹم ہے. ارجنٹ فیس جمع کروائی اور دو گھنٹے بعد نارمل اندراج کے ساتھ ویریفائڈ کمپیوٹرائزڈ ڈوپلیکیٹ برتھ سرٹیفکیٹ میرے ہاتھ میں تھا. میرے پوچھنے پر عملہ کا کہنا تھا کہ جرمن ایمبیسی میں بھی یہ پیدائش پرچی قابل قبول ہے اور اگر بورڈ آفس ہم سے ریکارڈ طلب کرے گے تو ہم ایک دن میں جواب داخل کر دیں گے.

میں بھاگتا بھاگتا بورڈ آفس پہنچا اور فائل جمع کروانے کے لئے کنٹرولر صاحب کی میز پر ایک بار پھر رکھ دی. کنٹرولر صاحب نے نہ صرف فارم جمع کرنے سے انکار کر دیا بلکہ ساتھ چند ایک الفاظ بھی جڑ دئے جن سے دل کو شدید تکلیف ہوئی. جن صاحب نے پہلی آفر کی تھی وہ آج بھی ان کے ساتھ ہی تھے. میں جونہی کمرے سے باہر نکلا وہ صاحب پھر آ دھمکے. کہتے ہیں کہ آپ برتھ سرٹیفکیٹ لے آئے ہیں تو اچھا ہے آپ سے اسی ہزار میں بات طے ہو جائے گی. کیوں اپنی جان کو عذاب میں ڈالتے ہیں. میں گھر مشورہ کرنے کا کہہ کر وہاں سے نکل آیا۔

رشوت! کبھی نہیں! والدہ محترمہ نے صاف صاف انکار کر دیا. میں، بہن، والدہ اور ماموں گھر پر گھمسان کی بحث کے بعد سر جوڑے بیٹھے ہوئے تھے. ماموں نے عمر کو فون کیا اور بلا لیا. عمر کے ایک دوست کے والد صاحب ریٹائرڈ پرنسپل و پروفیسر ہیں اور انکے ایک عدد رشتہ دار بورڈ آفس کی یونین کے اعلیٰ عہدہ دار. عمر اور میں دونوں ان کے گھر واقع مہران بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور جا پہنچے. انہوں نے کمال شفقت سے نہ صرف معاملہ سنا بلکہ رشتہ دار صاحب کو فون کیا اور کام کرنے کا کہا. ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ تمہیں خوش کر دیں گے. خوش کرنے سے مراد پیسوں کی لالچ ہی لیا جاتا ہے عرف عام میں. اس نے ہمیں بورڈ آفس بلا لیا. قصہ مختصر کہ تمام تر میسر وسائل کو بروئے کار لانے کے بعد دو ماہ چھ دن، اٹھائیس چکروں، بیس لوگوں کو چائے پلانے، سولہ لوگوں کو بتیس ہزار چھ سو ساٹھ روپے سپیڈ منی- جسے فائل کو پہیے لگانے کے لئے استعمال کیا جاتا اور رشوت تصور ہی نہیں کیا جاتا- تین ہزار دو مرتبہ سرکار کو ارجنٹ فیس جمع کروانے- جس میں سے ایک تین ہزار کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ وہ واپس کیسے ملے گا، چار لوگوں کو عیدی اور باقی اخراجات کر لینے کے بعد آج مورخہ انیس ستمبر دو ہزار سولہ کو تین ستمبر دو ہزار سولہ کو تیار ہو چکنے والا درست تاریخ پیدائش کے ساتھ میٹرک سرٹیفکیٹ میرے ہاتھ میں ہے اور تصویر آپ کے سامنے ہے. تمام سپیڈ منی کی تفصیلات والدہ محترمہ کو بھی اسی مقالہ کے ذریعہ سے معلوم ہوں گی اور پروفیسر صاحب گفٹ لیں گے تو نہیں لیکن میں زبردستی دینے کی کوشش کروں گا کہ جتنی مرتبہ دن رات ان سے فون کروائے بلکہ ایک مرتبہ تو انہیں جا کر بورڈ آفس بیٹھنا ہی پڑ گیا اور وہ باقاعدہ عملہ سے لڑ ہی پڑے اور یونین کے اعلیٰ عہدیدار صاحب کو خوش کرنا ابھی باقی ہے. چھ مرتبہ چھوٹی بہن کی جرمن ایمبیسی سے تاریخ کو تبدیل کرنا پڑا جس کی پاداش میں چھوٹی بہن کو دو ہفتوں کے لئے بلاک بھی کیا گیا. عمر صاحب کا جتنا شکریہ ادا کروں کم ہے کہ بیچارہ پورے آپریشن میں دن رات میرے کندھے کے ساتھ کندھا لگا کر کھڑا رہا. بس اتنا یاد رہے کہ تاریخی غلطی صرف ایک دن کی تھی جو کہ اب ٹھیک ہو چکی ہے۔

تیرہ اپریل دو ہزار پندرہ کو اے آر وائے سے جرم بولتا ہے پروگرام نشر ہوا جس میں جاتی عمرہ یعنی وزیر اعظم صاحب اور وزیر اعلیٰ پنجاب صاحب کے گھر کے نزدیک میں اور میری ٹیم نے جرم بولتا ہے پروگرام کے لئے ایک سنٹر پکڑا جس میں جامعات کے طلبہ پیسے لے کر میٹرک کے طلباء کے امتحانی پرچے حل کر رہے تھے. لنک موجود ہے۔ http://videos.arynews.tv/jurm-bolta-hai-13-april-2015/

اگر وقت ملے تو پروگرام دیکھیں لیکن یہ تمہید صرف اس لئے ہے کہ اس پروگرام کی وجہ سے نہ تو سسٹم یعنی نظام میں کچھ تبدیلی آئی اور نہ ہی اب اس مقالہ کے بعد کوئی بہت زیادہ تبدیلی متوقع ہے. ہمارا کام ہے نشاندہی کرنا. ہم کر رہے تھے،  کر رہے ہیں  اور جب تک سانس میں سانس ہے اور مٹی کی محبت جواں ہے کرتے رہیں گے.

کل بھی سرکاری ملازمین ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھے تھے اور آج بھی ایسا ہی ہے. زیادہ سے زیادہ ریکارڈ جلا دیا جائے گا؟ تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری!  ہم تو چلیں آسودہ حال لوگ ہیں پیسے خرچ لیتے ہیں چند ایک دوست احباب بھی ہیں جو ہر مشکل اور آسانی میں ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن کبھی سوچا ہے کہ وہ غریب بچے جو اپنے دل میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے  جزبات لئے اور آنکھوں میں خوبصورت مستقبل کے خواب سجائے دن رات کتابوں میں گم رہتے ہیں ان کے ساتھ بورڈ آفس اور محکمہ تعلیم کا رویہ کیسا ہے؟ کیا وہ سپیڈ منی دے سکتے ہیں؟ ان بیچاروں کے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ شہر کے باہر سے کرایہ خرچ کرنے کے بعد بورڈ آفس کی دہلیز ہی پار کر لیں.

محکمہ تعلیم کا حال صرف اس ایک واقعہ سے ہی اندازہ لگا لیں کہ مظہر حسین نامی پرنسپل گورنمنٹ پرائمری سکول سگھر، تلہ گنگ، چکوال کے خلاف پچھلے ایک سال سے درخواستوں کے انبار لگے پڑے ہیں لیکن چونکہ علاقہ کے ایم این اے صاحب اس کے سفارشی ہیں تو جناب کاروائی تو درکنار انکوائری ہی ای ڈی او صاحب کی میز سے آگے نہیں بڑھی اور ای ڈی او صاحب کو بارہا سیکریٹری ایجوکیشن آفس سے رمائنڈر لیٹر جا چکے لیکن کمال شخصیت ہے بھئی ای ڈی او صاحب کی جو جواب دینا بھی مناسب نہیں سمجھتے اپنے افسران بالا کو. نقد جرمانے وصول کرنا، بچوں کو مارنا، بچوں سے ذاتی اور گھریلو کام کروانا، اور سیاسی مخالفین کے بچوں کو سکول سے مار مار کر بھگا / نکال دینے کے الزامات ثابت ہوئے لیکن ایکشن کچھ نہیں.

جس بچے سے سسٹم بد تمیزی کرتا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ وہ تمیزدار رہے گا؟ جس بچے کا مستقبل بورڈ آفس اور محکمہ تعلیم برباد کرتا ہے وہ اندر سے ٹوٹا ہوا بچہ کبھی جڑ  پاتاہے؟ ٹوٹے دل کبھی جڑا کرتے ہیں بھلا؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ بے حسی کے بیج سے ترقی یافتہ قوم کا پھل حاصل کر لیں؟ میں بے جا تنقید کا قائل نہیں لیکن جن بچوں کو ظلم، بربریت اور بے حسی کا نشانہ بنایا گیا اور جاتا ہے وہ ایک ایک کہانی ہماری نظروں سے اوجھل رہ جاتی ہے اور پھر کسی اور روپ میں، کسی اور جگہ، کسی اور انداز میں ہمارے سامنے آ ہی جاتی ہے. بلا شبہ ہم سب ذمہ دار ہیں لیکن ....اب بس کر دیجیئے!  کھوکھلے اور جھوٹے دعوے! آسانیاں دینے کے لئے، درست رہنمائی کے لئے، اعلیٰ اقدار کے فروغ کے لئے، ایک قوم کی تعمیر کے لئے اور سب سے بڑھ کر ایک خوبصورت مستقبل کے لئے آپ کو منصب عطا ہوا ہے. کام کیجیئے!  کاروبار بند کر دیجئے! نفرت، اقربا پروری، رشوت ستانی، بدانتظامی اور سب سے بڑھ کر بے حسی کا کاروبار.

میں بہت زیادہ پر امید نہیں لیکن میرا فرض تھا میں نے ادا کیا.

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری