بلوچستان دہشت گردوں کے نشانے پر کیوں؟


بلوچستان دہشت گردوں کے نشانے پر کیوں؟

سینیئر پاکستانی صحافی اور کالم نگار نے اپنے تجزیے میں بھارت اور افغانستان کے خفیہ اداروں کو بلوچستان میں بدامنی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

خبررساں ادارے تسنیم کو ارسال کئے گئے اپنے مقالے میں سینیئر صحافی اور کالم نگار سید صدر الدین صدر نے بلوچستان کی بدامنی میں بھارت اور افغانستان کے خفیہ اداروں کے کردار سے متعلق تحریر کیا ہے جس کا متن پیش خدمت ہے:

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں دہشت گردی کے پے در پے دلخراش واقعات نے پاکستان کو سوگوار کر رکھا ہے اتفاق کہئے یا باقاعدہ منصوبہ بندی، گزشتہ ہفتے (24 اکتوبر) کو ہونے والے سانحے میں میں 61 اکسٹھ افراد شہید ہوگئے۔ جام شہادت نوش کرنے والے شہدا میں سب سے زیادہ تعداد بہادر غیور بلوچ نوجوانوں کی ہے۔ 100 سے زائد افراد زخمی ہیں بعض کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ یہ سانحہ کوئٹہ شہر کے قریب واقع پولیس ٹریننگ کالج میں ہوا۔ جہاں 3 دہشت گردوں نے کالج کی عمارت میں گھس کر پہلے فائرنگ کی اور پھر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔

اس واقعے کی ذمہ داری ایک کالعدم تنظیم نے قبول کی ہے جسکا مرکز افغانستان بتایا جاتا ہے۔

اس سے پہلے کوئٹہ کے سول ہسپتال میں دہشت گردی کے ایک واقعہ میں 50 سے زائد وکیل اور دو درجن سے زائد عام شہری لقمہ اجل بن گئے۔

یہ واقع 8 اگست بروز پیر کو پیش آیا تھا۔ بلوچستان خصوصاً کوئٹہ اور اس کے گردونواح میں دہشت گردی کی وارداتیں اگرچہ بہت کم ہو گئی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ حالات کو معمول پر لانے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔

بلوچستان میں جاری دہشت گردی کے واقعات کے ذریعے فرقہ وارانہ فسادات کروانے کی کوشش کی گئی لیکن ان سازشوں کو علماء کرام نے ناکام بنا دیا۔ دہشت گردوں نے کوئٹہ میں موجود ہزارہ برادری کو کئی مرتبہ نشانہ بنایا جسکا مقصد پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات برپا کرنا اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے۔

بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے جب فوج کی کمان سنبھال لی تو انکے سامنے سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی تھا کیونکہ اس دہشت گردی کی وجہ سے ہزاروں معصوم شہری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار شہید ہو چکے تھے اور ملک کی معیشت کو بھی بُری طرح نقصان پہنچا۔

چنانچہ آپریشن ضرب عضب شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور پاکستان کی مسلح افواج نے چند ماہ میں ہی صورتحال کو اچھے طریقے سے سنبھال لیا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں سینکڑوں دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔ انکی کمین گاہیں تباہ کردی گئیں اور قبائلی علاقے کو مکمل دہشت گردوں سے پاک کردیا گیا۔

آپریشن ضربِ عضب کے آغاز میں پاکستان نے ہمسایہ ملک افغانستان سے با ضابطہ طور پر یہ کہا تھا کہ خدشہ ہے کہ اس آپریشن کے نتیجے میں بہت سے دہشت گرد بھاگ کر افغانستان میں پناہ لیں گے اور اس طرح وہ وقتاً فوقتاً کابل اور اسلام آباد کے لیے مسائل پیدا کریں گے کیونکہ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ دونوں ممالک کا مشترکہ دشمن دہشت گردی ہے اور ہم سب کو ملکر اسے شکست دینی ہے۔

بد قسمتی سے افغانستان کی جانب سے کوئی تعاون سامنے نہیں آیا اور یہ دہشت گرد مختلف ناموں اور تنظیموں کے آلہ کار بن کر پاکستان میں تخریبی کاروائیاں کر رہے ہیں اور خطے کے امن کو تباہ کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے لیے بلوچستان کا انتخاب کیوں کیا گیا ہے؟ اور دشمن اس علاقے سے کون سے فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے؟

عالمی سیاست میں پاکستان خصوصاً بلوچستان کہاں کھڑے ہیں۔ عالمی طاقتیں کن کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہی ہیں؟ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔

ان تمام سوالوں کے جواب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے خود دئے ہیں۔ گذشتہ مہینوں کے اخبارات کا جائزہ لیں۔ بھارتی شدت پسند رہنماؤں کے بیان پڑھیں اور تو اور نریندر مودی کی تقاریر پڑھیں تو وہ بالکل واضح طور پر بلوچستان کا ذکر کرتے ہوئے ملتے ہیں۔

بنگلہ دیش کے بنانے میں بھارت کا کردار اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے حوالے سے ان کی تقاریر نے کسی تحقیق کی ضرورت باقی نہیں چھوڑی۔ گذشتہ دنوں پکڑا جانے والا بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو جو انڈین آرمی میں حاضر سروس افسر ہے، نے اپنے بیان میں بھارتی سازشوں اور عزائم سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ پاکستان نے عالمی برادری کو اس ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا ہے۔

پاکستان کے پاس ٹھوس شواہد ہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را (RAW) اور افغان ایجنسی (NDS) ملکر پاکستان میں دہشت گردی کرواتے ہیں۔

آرمی پبلک سکول پشاور میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائی باقاعدہ سرحد پار سے کنٹرول کی جارہی تھی۔

گذشتہ دنوں کوئٹہ میں واقع پولیس ٹریننگ کالج میں دہشت گرد اپنی کاروائی کے دوران ٹیلی فون پر ہدایات وصول کر رہے تھے۔ ابتدائی تفتیش میں پتہ چلا ہے کہ یہ کاروائی بھی (RAW) اور (NDS) کی ملی بھگت سے ہوئی ہے۔

عالمی طاقتیں پاکستان کو غیر مستحکم اس لیے کرنا چاہتی ہیں کہ ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان خطے کی صورتحال کو بدل کر رکھ دے گا اور عالمی سیاسی ایجنڈے کو عملاً ناکام بنا دے گا۔

عالمی قوتیں پاکستان کو غریب اور کمزور دیکھنا چاہتی ہیں اور دہشت گردی کے پے در پے واقعات کی آڑ میں پاکستان کے جوہری پروگرام کو ختم کرانا چاہتی ہیں تاکہ بھارت اور اسرائیل ایک مضبوط قوت بن کر اُبھریں  جبکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ اسکا جوہری پروگرام ہی اسکی سلامتی کی ضمانت ہے۔

گذشتہ چند ماہ سے بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں جو تیزی آئی ہے اسکی اصل وجہ چین کی جانب سے پاکستان میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہے۔ جس نے امریکہ سمیت بہت سے ملکوں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ اس سرمایہ کاری سے ایک بڑے اور اہم منصوبے پر کام شروع ہو چکا ہے اور وہ ہے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) جو بلوچستان کی بندرگاہ گوادر سے شروع ہو کر براستہ شاہراہِ ریشم قراقرم چین سے جا ملے گی۔

بظاہر تو یہ منصوبہ دو ملکوں کے درمیان تجارتی مقاصد کے لیے بنایا جا رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وسط ایشیائی ملکوں سمیت دنیا کے تقریباً 60 ممالک اس منصوبے سے فائدہ اُٹھائیں گے اور اس کے علاوہ بلوچستان میں دنیا کی بہترین 43 معدنیات کے وسیع ذخائر بھی موجود ہیں۔

بلوچستان میں گوادر کی طرح مزید کئی گہری بندرگاہیں تعمیر کی جا سکتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم محمد نواز شریف کے دورہ امریکہ کے دوران انکی ملاقات برادر اسلامی ملک ایران کی اعلیٰ قیادت سے ہوئی۔ جس میں ایران نے سی پیک منصوبہ میں اپنی دلچسپی ظاہر کی تھی ۔

پاکستان میں آپریشن ضربِ عضب کامیابی سے جاری ہے اور اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ اس مرحلے میں دہشت گردوں کے صفایے کے ساتھ ساتھ انکے سہولت کاروں کی گرفت ہوگی۔

سانحہ کوئٹہ میں شہید ہونے والے جوانوں کی ان کے آبائی علاقوں میں تدفین کردی گئی ہے اور دہشت گردوں کے DNA ٹیسٹ اور نادرہ ریکارڈ کے مطابق حملہ آور پاکستانی شہری نہیں ہیں۔

زخمی جوانوں نے انٹرویو میں بتایا ہے کہ دہشت گرد ہمسایہ ملک کی زبان میں گفتگو کر رہے تھے اور براہ راست ہدایات لے رہے تھے۔

پاکستان گذشتہ 35 سالوں سے 30 لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہے۔ غیر ملکی ایجنسیاں اس صورتحال سے بہت فائدہ اُٹھا رہی ہیں۔ پاکستان عالمی برادری کی توجہ بار بار اس جانب مبذول کروا رہا ہے اور چاہتا ہے کہ افغان پناہ گزین عزت اور وقار کے ساتھ اپنے ملک واپس لوٹ جائیں اور اپنے ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کریں۔

پاکستان سمجھتا ہے کہ مضبوط اور خوشحال افغانستان پورے خطے اور پاکستان کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری