ملالہ یوسف زئی/ دین محمد/ گل صمد/ وہی سکوت وہی تکراری باتیں


ملالہ یوسف زئی/ دین محمد/ گل صمد/ وہی سکوت وہی تکراری باتیں

ملالہ یوسف زئی امریکی ذرائع ابلاغ کے لئے پاکستانی بچوں میں ایک نمونہ ہے۔ آپ نے ''صمد گل'' اور ''دین محمد'' کے بارے میں سنا ہی ہوگا کہ یہ بچے امریکی ڈرون حملوں میں مارے گئے / ایرانی ذرائع ابلاغ کا ان کے بار میں کیا کہنا ہے؟

تسنیم نیوز ایجنسی: حمیدرضا بوالی کے متن کا ترجمہ

ملالہ یوسف زئی 12 جنوری، 1997ء کو پاکستان میں پیدا ہوئی جو اِس وقت پاکستانی خواتین کی تعلیم کے لئے کوشاں رہنے والوں میں سے ایک سرگرم رکن ہے، ملالہ کو اقوام متحدہ سے نوبل انعام وصول کرنے والی سب سے کم عمرترین شخصیت ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے۔

اس کی شہرت کی وجہ اپنے آبائی علاقے سوات اور خیبر پختونخواہ میں انسانی حقوق، تعلیم اور حقوق نسواں کے حق میں کام کرنا ہے جب مقامی طالبان نے لڑکیوں کو اسکول جانے سے روک دیا تھا تو ملالہ نے خواتین کی تعلیم کے لئے بغیر کسی خوف و خطر کے کوششیں کیں اور طالبان کی طرف سے منع کرنے کے باوجود اس نے تعلیم جاری رکھی اور خواتین کی تعلیم کے لئے تحریک چلائی جو اب بین الاقوامی سطح پر پھیل چکی ہے۔

سوات میں طالبان کے زوال کے بعد اب یہ علاقہ دوبارہ خواتین کی تعلیم کے لئےکوشاں نظر آرہا ہے اور لڑکیوں کے تمام اسکول کھل گئے ہیں۔ سوات کی بہت سی لڑکیوں کا ماننا ہے کہ انہیں تعلیم  جیسی عظیم نعمت ملی ہے تو وہ ملالہ کی وجہ سے ہی ملی ہے اگر ملالہ نہ ہوتی تو سوات میں خواتین کے لئے تعلیم کا چراغ ہمیشہ کے لئے بجھا دیا گیا تھا۔

9 اکتوبر، 2012ء کو ملالہ اسکول جانے کے لئے  اپنی ہم جماعت لڑکیوں کے ساتھ بس پر سوار ہو جاتی ہے ایک مسلح دہشت گرد بس کو روک کر لڑکیوں کا نام پوچھنا شروع کردیتا ہے اور ملالہ کا پتہ چلنے پر اسی وقت تین گولیاں مار کر اسے ہلاک کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔

ملالہ شدید زخمی ہو جاتی ہے اور اسے مقامی اسپتال منتقل کیا جاتا ہے کئی روز تک ملالہ بے ہوش رہتی ہے  اور اس کی حالت نازک بتائی جاتی ہے کہ اس کے بچنے کی امید ہی نہیں تھی تاہم جب اس کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو اسے برمنگھم کے کوئین الزبتھ اسپتال کو بھیج دیا گیا اور اسی اسپتال میں اس کا علاج کیا گیا اور دوبارہ ملالہ اپنی تعلیمی سرگرمیوں سے بالاتر ہوکر سیاسی میدان میں بھی نظر آنے لگی اور یوں انہیں بین الاقوامی اعلیٰ ترین اعزاز سے نوزا گیا۔

ملالہ اقوام متحدہ کی اسمبلی سے خطاب کرتی ہے اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ان کی باتیں سن کر آب دیدہ ہو جاتے ہیں۔ ملالہ کا خطاب دنیا بھر کے ٹی وی چینلز پر نشر کیا جاتا ہے وہ دن عالمی ذرائع ابلاغ کے لئے یوم ملالہ ہے۔

اُس دن کے بڑے بڑے جریدوں کے سرورق ملالہ کی تصاویر سے سج جاتےہیں۔

''صمد گل'' اور ''دین محمد'' بھی تو پاکستانی ہی بچے تھے جو امریکی ڈرون حملوں میں مارے جاتے ہیں۔

کئی سال پہلے امریکی ڈرون پاکستان کے ایک دینی مدرسے پر بمباری کرتے ہیں اور کئی بے گناہ معصوم بچے خاک وخون میں غلطاں ہو جاتے ہیں ان کی فہرست قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے:

تین 8 سالہ، تین 9 سالہ، ایک 10 سالہ، چار 11 سالہ، چار 12 سالہ،آٹھ 13 سالہ، چھ 14 سالہ، نو 15 سالہ، انیس 16 سالہ اور بارہ 17 سالہ بچوں کا قتل عام کیا جاتا ہے۔

یہ تصاویر امریکی ڈرون میں مارے جانے والے پاکستانی بچوں کی ہیں۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق، امریکی ڈرون حملوں میں 169 پاکستانی بچوں کا قتل عام ہوچکا ہے۔

ملالہ پر حملے کے ٹھیک ایک ہفتے بعد سوات سے متصل ہمسایہ ملک افغانستان کے صوبے ھملند میں بھی ایک واقعہ رونما ہوتا ہے۔ اس واقعے میں 12 سالہ برجان، 10 سالہ ولی اور 8 سالہ خان بی بی اپنی جانوں کو گنوا بیھٹتے ہیں۔ امریکی اہلکار اعلان کرتے ہیں کہ طالبان کے کئی ارکان سڑک کے کنارے بم نصب کرنے میں مصروف تھے جو ڈرون کا نشانہ بنے اور ہلاک ہوگئے اور مارے جانے والوں میں ان کے بچے بھی شامل تھے جو کہ بڑے بدقسمت تھے!!!

شروع میں تو امریکی حکام کسی بھی بچے کی ہلاکت سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بم نصب کرنے والے تین طالبان مارے گئے ہیں بس! لیکن رفتہ رفتہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ حملے میں بچے بھی مارے گئے ہیں تو امریکی کہتے ہیں کہ ہمیں افسوس ہے کہ بچے مارے گئے اور یہی پر قصہ ختم۔

دوسری طرف امریکی ذرائع ابلاغ میں ملالہ ہی ملالہ نظر آرہی ہے ایسا لگتا ہے کہ امریکہ میڈیا ملالہ میں ہی غرق ہوئی ہو، انسانی حقوق کا ڈونگ رچانے والے ذرائع ابلاغ میں تو ''برجان'' ، ''بی بی خان''، ''ولی''، ''صمد گل'' اور'' دین محمد'' کا ذکر تک نہیں ملتا ہے۔

دنیا کے کسی روزنامے میں ان کو جگہ نہیں ملتی، نہ ان کا ذکر ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی یاد میں شمعیں روشن کی جاتی ہیں۔

تازہ ترین سروے کے مطابق، امریکی ڈورن حملوں میں مارے جانے والے افغانی، یمنی اور پاکستانی شہریوں کے بارے میں صرف 20 فیصد امریکی مخالف ہیں، 80 فیصد کا کہنا ہے کہ ان ممالک  میں بم گرانے والے امریکی فوجی قوم کے ہیرو ہیں۔

ملالہ طالبان حملے میں زخمی ہوجاتی ہے حملہ کرنے والوں کو انعام کا اعلان کیا جاتا ہے، ملالہ بغیر کسی تاخیر کے لندن کے ایک بڑے ہسپتال پہنچ جاتی ہے، دنیا بھر میں ہزاروں لوگ ملالہ کے حق میں مظاہرے کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن یہ بھی تو پاکستانی بچے تھے جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ امریکی حملوں میں مارے گئے، جنازے والدین کے حوالے کئے گئے۔ بس!!!! اس طرح دنیا اور امریکی عدالتوں کی دوہری پالیسی عیاں ہو جاتی ہے۔

کاش جس طرح ملالہ کو لیکر دنیا بھر میں فریاد کیا گیا اسی طرح ان معصوم بچوں کا بھی ذکر کیا جاتا جو امریکی ڈورن حملوں میں بے جرم و خطا مارے گئے۔

پاکستانی بچوں کو خاک و خون میں غلطاں کرنے والے ڈرون کو ہدایات دینے والے امریکی فوجی ایک دن اپنے ملک ضرور واپس جائیں گے۔ ان کا استقبال ایک ہیرو کے طور پر کیا جائے گا اور کہا جائے گا۔ ہم امریکی تمہارے شکر گزار ہیں کیونکہ تم نے امریکہ کا  دفاع کیا ہے اگرچہ دفاع کرتے کرتے بے گناہ بچے بھی مارے گئے ہوں۔

امریکی ذرائع ابلاغ ملالہ کو لیکر دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ امریکہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں مظلوموں کا حامی ملک ہے اس قسم کی تبلیغات پر صمد گل اور ولی جیسے بچوں نے پانی پھیر دیا ہے اور دنیا پر واضح کردیا ہے کہ امریکہ بچوں کا قاتل ملک ہے۔

ایرانی ذرائع ابلاغ  بھی خاموش تماشائی

ایرانی ذرائع ابلاغ بھی ان مظلوموں کی آواز کو دنیا تک پہنچانے میں کوئی خاص کردار ادا کرنے کے بجائے خاموش تماشائی دکھائی دیتے ہیں۔

تقریبا ایک سال پہلے وائٹ ہاؤس میں ایک پر تعیش تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب میں مشہور گلوکار بھی مدعو تھے۔ تقریب سے امریکی صدر باراک اوباما نے مختصر خطاب کیا اور لوگوں سے مزاحیہ انداز میں کہا "میری بیٹیاں اس گروہ کی عاشق ہیں لیکن یاد رکھنا اپنے ذھن میں غلط باتوں کا تصور نہ کرنا کیونکہ ہمارے ڈرون ہمہ وقت غلط تصور کرنے والوں کا پیچھا کر رہے ہیں۔"

تقریب میں موجود تمام شرکاء نے تالیاں بجاتے ہوئے قہقہے لگائے۔۔۔۔ لیکن اس تقریب میں کوئی مائی کا لال ایسا نہیں تھا جو اوباما کو یہ بتا سکے کہ امریکی ڈرون کسی امریکی کا پیچھا کرنے والے نہیں ہیں۔ ساشا اور مالیا اپنی عشق بازی میں مصروف رہ سکتی ہیں کسی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔

شہریوں کی آواز

اسماعیل حسین کہتے ہیں: چھ سال کا بچہ جب بھی فضا میں ڈرون کو دیکھتا ہے تو رونے لگتا ہے اور مجھ سے کہتا ہے کہ کہیں یہ ڈرون میرے چچا ساجد کو مار نہ دے۔ اس کو معلوم ہی نہیں ہے کہ چچا کب سے ڈرون کا نشانہ بن چکے ہیں۔

''داود اسحاق'' کہتے ہیں کہ امریکی ڈرون چوبیس گھنٹے ہمارے سروں پر پرواز کرتے رہتے ہیں اب سکون نامی کوئی چیز ہماری زندگی میں نہیں ہے۔

''اسماعیل حسین'' کا کہنا ہے کہ ہمارے بچے ڈرون سے خائف ہوکر اسکول نہیں جاتے۔

''فیروز علی خان'' کا کہنا ہے کہ ہم اپنےگھروں میں بھی سکون سے نہیں رہ سکتے کیونکہ کسی بھی وقت امریکی ڈرون حملہ کرسکتے ہیں۔

ایک اور شہری کا کہنا ہے کہ ہم اب اپنے عزیز و اقارب کے تشیع جنازے میں بھی شریک نہیں ہوسکتے ہیں کیونکہ جہاں امریکیوں کو اجتماع نظر آتا ہے وہاں وہ حملہ کرتے ہیں۔

یہ وہ جملے ہیں جو ''زندگی ڈرون کے سایےتلے'' نامی ویب سایٹ کے صفحہ اول میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

دنیا میں پاکستان سمیت کئی ممالک کے شہریوں سے ایران کے بارے میں اہم سوالات پوچھے گئے اور ان تمام ممالک میں ایران کی محبوبیت کا جائزہ لیاگیا اور جائزے  سے معلوم ہوا کہ اسلامی جمہوری ایران پاکستانیوں میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔

کیونکہ ایران اور پاکستان مذہبی، ثقافتی اور سماجی اعتبار سے ایک دوسرے کے قریب ہیں۔

رپورٹ ملاحظہ کیجئے:

«فرهنگ، سیاست، اسلامی جمہوریہ»/ خصوصی دستاویزی رپورٹ «ایران، جانِ پاکستان»ــ1 » ہمالیا کے کسی قھوہ خانے میں امام خمینی کی تصویر سے لیکر خرمشہر کی آزادی کےلئے روزوں کی منت تک۔

خصوصی دستاویزی رپورٹ «ایران، جانِ پاکستان»ــ2 » ہم پاکستان میں بھی ایک "خمینی" چاہتے ہیں۔

خصوصی دستاویزی رپورٹ «ایران، جانِ پاکستان»ــ3 » ایران کے ثقافتی انقلاب کے فروغ کا بوجھ ایک 22 سالہ پاکستانی کے کندھوں پر/ «سلحشور» پاکستان میں ایرانی ثقافت کے سپاہی۔

خصوصی دستاویزی رپورٹ «ایران، جانِ پاکستان»-4 » پاکستان کے مسلمان ایران کے ساتھ زندہ ہیں/ ہمارا عقیدہ ہے کہ "اگر ایران نہ ہو تو ہم بھی نہ رہیں گے"۔

خصوصی دستاویزی رپورٹ «ایران، جانِ پاکستان»-5 » جنگ کے دوران ایران کے لئے پاکستانی خواتین کے زیورات کے عطیے۔

خصوصی دستاویزی رپورٹ «ایران، جانِ پاکستان»-6 » پاکستان میں فارسی زبان/ ہم جہاں جاتے ہیں وہاں فارسی ضرور پاتے ہیں۔

ثقافت، سیاست ، اسلامی جمہوریہ/ خصوصی دستاویزی رپورٹ/ «ایران، جانِ پاکستان»-7 ایران نے پاکستانیوں کے دل جیت لئے ہیں، رئیس‌السادات۔

ثقافت، سیاست ، اسلامی جمہوریہ/ خصوصی دستاویزی رپورٹ/ «ایران، جانِ پاکستان»-8  امام خمینی کی ایران آمد اور آیت اللہ خامنہ ای کا دورہ پاکستان

اہم ترین ایران خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری