سعودی عرب کے وہابی مبلغ کے پاکستان میں ایران سے متعلق عوام فریبی کی خاطر متضاد بیانات


سعودی عرب کے وہابی مبلغ کے پاکستان میں ایران سے متعلق عوام فریبی کی خاطر متضاد بیانات

نائب امام کعبہ جو پاکستان دورے پر ہیں، نے عوام کو فریب دینے کی کوشش کی کہ ایران اور سعودی اختلافات کو سیاسی قرار دے تاہم وہ اس معاملے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق اگرچہ سعودی مفتی اعظم جو اس سے قبل اہل بیت علیہم السلام کی توہین کے بھی مرتکب ہوئے ہیں، عرصہ قبل ایرانیوں کو کافر اور نجس قرار دیا تھا تاہم امام کعبہ جو جمعیت علمائے اسلام (ف) کی صد سالہ تقریبات میں شرکت کی غرض سے پاکستان دورے پر ہیں، کا ایرانی قوم کے حوالے سے کہنا تھا: "ایران کیساتھ ہمارا اختلاف دینی اور مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہے"۔

اس حوالے سے چند سوالات اٹھائے جا رہے ہیں: کیا آل سعود (جن کا ایرانیوں کے ساتھ کوئی دینی اختلاف نہیں لیکن انہیں کافر قرار دے رہے ہیں) خود بھی کافر ہیں؟ کیا جو بھی ملک جس کے ساتھ دینی اختلافات ہوں اسے کافر قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیا ایرانی بعض اوقات کافر ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات کافر نہیں ہوتے؟ کیا آل سعود کی نظر میں سعودی عرب میں ایرانی کافر ہوجاتے ہیں اور پاکستان میں مسلمان؟

یا آل سعود کے ان متضاد بیانات کیلئے کی کوئی اور دلیل ہوسکتی ہے؟

بے شک صالح ابن ابراہیم نائب امام کعبہ جو ایک جید مذہبی رہنما کے طور پر پاکستان کے دورے پر ہیں، کے پاس ایران سے متعلق کچھ کہنے کا منصوبہ نہ تھا لیکن صرف چند دن قیام سے ہی ان کو ایرانی قوم کے پاکستانیوں کے دلوں میں محبت کا اندازہ ہوگیا اور لاچار ہوتے ہوئے اپنے ہی مفتی اعظم کے فتویٰ (جس میں انہوں نے ایرانیوں کو کافر قرار دیا تھا)، کے خلاف زبان کھولتے ہوئے کہا: "ایران کیساتھ ہمارا اختلاف دینی یا مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہے"۔

یہ ایسے موقع پر ہے کہ تکفیریت کا رواج آل سعود اور وہابیوں کی توسط سے (جو تمام مسلمان مکاتب فکر کے مقابلے میں صرف اپنے آپ کو مسلمان گردانتے ہیں)، بغیر کسی دلیل و علت کے باعث بنا کہ آج دہشتگرد گروہوں میں سے ایک نے امام کعبہ کو بھی کافر قرار دیا۔

دہشت گرد گروہ جماعت الاحرار نے اپنے فیس بک اکاونٹ پر صالح ابن ابراہیم کو ان کے پاکستانی عوام اور حکومت سے متعلق تقریر کو ذریعہ بناکر کافر قرار دیا۔

دوسری جانب صالح ابن ابراہیم نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا: "ایرانیوں کیساتھ ہمارا کوئی مذہبی یا دینی تنازعہ نہیں رکھتے اور دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کی نوعیت سیاسی ہے"۔

انہوں نے اس سے قبل منا سانحہ کے بعد معافی مانگنے کی بجائے ایران کو دنیا کے مختلف نکات میں مسلمانوں کے قتل عام کا ذمہ دار ٹہارایا تھا۔

اہم ترین اسلامی بیداری خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری