کرم ایجنسی، سیکیوریٹی ادارے اور پولیٹیکل انتظامیہ


کرم ایجنسی، سیکیوریٹی ادارے اور پولیٹیکل انتظامیہ

کرم ایجنسی دیگر ایجنسیوں کی نسبت پُرامن ہوچکا ہے جس میں سیکیوریٹی اداروں کیساتھ ساتھ علاقے کی عوام کی بھی بھرپور کاوشیں شامل ہیں۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: اپر کرم ہو یا لوئر کرم اور یا سنیٹرل کرم، نہایت قابل قدر اور معزز مشران قوم اور نوجوان موجود ہیں جنہوں نے ایجنسی میں لگی آگ بجھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب وقت آ پہنچا ہے کہ کرپٹ مشران اور تخریب کار جوانوں کی حوصلہ شکنی کی جائے اور پولیٹیکل انتظامیہ میں بیٹھے کالی بھیڑیوں کو آئینہ دکھایا جائے۔

2007سے 2011 تک کے خونریز قبائلی اور فرقہ ورانہ لڑائی کے بعد کوئی بھی ذی شعور جوان اسلحہ اُٹھانے کے حق میں نہیں اور کرم ایجنسی کے جوان کھیل اور تعلیم کے شعبے میں روز افزوں ترقی کررہے ہیں جس میں پبلک سیکٹر کے سکولوں کا کردار قابل قدر ہے۔

پانچ سالہ خونریز فرقہ ورانہ اور قبائلی جنگ میں سیکیوریٹی اداروں کا کردار نہایت اہم ہے۔ جہاں چار سال تک سب سیکیوریٹی ادارے خاموش تماشائی بنے رہے اور ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنتے رہے لیکن پھر ایسا وقت بھی آیا کہ ٹل سے لیکر پاراچنار تک سیکیوریٹی اداروں نے سینکڑوں چیک پوسٹ قائم کئے اور فرقہ ورانہ اور قبائلی جنگ پر قابو پا لیا۔

تاہم 2011 کے بعد دہشتگردوں نے بعض قبائل کیساتھ ملکر کرم ایجنسی کے شیعہ آبادی کو خودکش بم دھماکوں کا نشانہ بنانا شروع کیا جس پر پاکستان سمیت دنیا بھر کی طرح یہاں بھی قابو پانا مشکل ہوا ہے۔ 2011 کے قبائلی اور فرقہ ورانہ جنگ کے بعد پاراچنار اور گرد و نواح کی شیعہ آبادی کو 11 بڑے خودکش دھماکوں کا نشانہ بنایا گیا ہے جس کے اکثر سہولتکار پکڑے گئے ہیں اور سیکیوریٹی اداروں کے مطابق اس کے سہولتکار مقامی ہیں۔ اب حکومت اور سیکیورٹی اداروں نے ان سہولتکاروں کیخلاف کوئی کارروائی کی ہے یا نہیں یہ بات وہ بتانے سے گریز کررہے ہیں۔ لیکن سب کو پتہ ہے کہ خودکش میں استعمال ہونیوالی گاڑیاں کہاں تیار ہوتی رہی ہیں اور کہاں سے ہوتی ہوئی پاراچنار داخل ہوتی رہی ہیں۔

اصل مقصد اس پورے کہانی کا یہ ہے کہ جن اداروں نے ابھی تک دہشتگردی کے اس سارے عمل سے سبق نہیں سیکھا ہے اس میں سرفہرست پولیٹیکل انتظامیہ ہے۔ صرف کرم ایجنسی کا پولیٹیکل انتظامیہ ہی نہیں بلکہ سات ایجنسیوں کے پولیٹیکل سسٹم مکمل فیل ہوئے ہیں، کرم ایجنسی کے ساتھ ساتھ خیبر، مہمند، اورکزئی، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان اور  باجوڑ ایجنسیاں مکمل طور پر تباہ و برباد ہوچکی ہیں اور اس کی مکمل طور پر ذمہ داری پولیٹیکل انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ پولیٹیکل ایجنٹ ایجنسی کا بادشاہ ہوتا ہے، بلکہ بادشاہ سے بھی زیادہ طاقتور کیونکہ عدالت، انتظامیہ اور مقننہ سب ان کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور مزیدار بات یہ کہ پولیٹیکل ایجنٹ کسی کے سامنے جوابدہ بھی نہیں۔ جبکہ علاقائی ذمہ داری کے قانون کے تحت تخریب کاری اور دہشتگردی کے ذمہ دار علاقے کے عوام ہوتے ہیں۔

لگے ہاتھوں ایک سنگین مسئلہ کی نشادہی بھی ضرور ہے تاکہ نئی حلقہ بندی کے وقت یاد رہے، پوسٹوں اور ترقیاتی اسکیموں کی غیر منصفانہ تقسیم کا روک تھام کیا جائے اور وہ یہ کہ جس علاقے کو آج سنٹرل کرم کہا جاتا ھے یہ علاقہ غیر اور کرم کا حصہ نہیں تھا، انتظامی لحاظ سے اس کا نام "علاقہ غیر FR Kurram" تھا جیسے اب FR Kohat, FR Banu , FR DIKhan ہیں۔ وہ سارے FRs اب بھی اسی حیثیت میں باقی ہیں صرف کرم سے ملحق FR کو سازش کے تحت کرم ایجنسی میں ضم کیا گیا اور 2002 کے بعد تو باقاعدہ ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے اس کو سنٹرل کرم کا نام دیکر باقاعدہ حصہ بنایا گیا۔ اس سے لوئر کرم کو بہت کم لیکن اپر کرم کو بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ اس کا مناسب حل تلاش کیا جائے۔

جس اصل موضوع کی طرف لانا تھا وہ یہ کہ حال ہی میں صدہ میں منعقدہ ایک تقریب مثال کے طور پر پیش کرتا ہوں تاکہ سب کی آنکھیں کھول جائیں اور اس طرح زیادتی سے آئندہ گریز کیا جائے بلکہ متعصب اہلکاروں کو برطرف کرکے اہل اہلکار لگائیں اور پوسٹوں کی تقسیم بھی مناسب تناسب سے کریں تو کئی مشکلیں خود بخود حل ہوجائیں گی۔

نسیم خان لوئر کرم صدہ سے ایک نام نہاد صحافی ہے جو اکثر عوامی جذبات ابھارتے رہے ہیں۔ نیسم خان نے کل ہی ایک رپورٹ شائع کی ہے کہ جی او سی جناب اظہر اقبال عباسی نے آج بروز ہفتے کو صدہ کا اسپیشل دورہ کیا، 114 وینگ میں کمانڈنٹ کرم ملیشیاء راشد محمود، وینگ کمانڈر کرنل مقصود انجم، میجر ارسلان، کیپٹن زین اور  پولیٹیکل انتظامیہ کرم کے افسران اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ طارق حسن، اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ سنٹرل کرم عرفان علی و دیگر ٹیم نے مہمان کا استقبال کیا، مقامی مشران کے جانب سے ملک حاجی عبدالمنان نے ایجنسی روایات کے مطابق میجر جنرل کو کولہ لونگی پہنائی، اس موقعہ پر لوئر، سنٹرل کرم کے مشران سے ملاقات کی مشران سے خطاب کرتے ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ علاقے ترقی و امن امان قائم رکھنے میں حکومت سے زیادہ آپ لوگوں کا کردار ہے کیونکہ امن اور بدامنی کا اثر سب سے پہلے مقامی لوگوں پر پڑتا ہے۔

اب لوئر کرم کے امن و امان کی صورتحال پر بلائی گئی اس نمائندہ قبائلی جرگہ میں مشران بلانے کی ذمہ داری اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ اور اس کے ریڈر کی ہوتی ہے۔ معلومات کے مطابق اس امن جرگے میں ٹوٹل تین شیعہ مشران مدعو تھے جنہیں بولنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا جبکہ لوئر کرم میں عمل کوٹ سے لیکر علیزئی تک ایک بہت بڑی تعداد میں شیعہ علاقے شامل ہیں جس کی آبادی لگ بھگ ایک لاکھ کے قریب ہے۔

دوسری طرف اپر کرم میں اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ اور ریڈر سنی مسلک سے ہیں اور جب بھی کوئی جرگہ بلایا جاتا ہے اس میں شیعہ مشران سے زیادہ تعداد ہمارے سنی بھائیوں کی ہوتی ہے اور ہر ایک کو بولنے کے برابر مواقع ملتے ہیں جس پر نہ ہمیں کوئی اعتراض ہے اور نہ ہی کھبی شکوہ اور شکایت کی ہے۔ آج جب ہم شکایت کررہے ہیں تو اس زیادتی پر کررہے ہیں جو لوئر کرم صدہ میں ہورہا ہے۔

لہذا اب ہمارا مطالبہ ہے کہ اپر کرم اور لوئر کرم میں پولیٹیکل انتظامیہ کے اہلکاروں کی تعیناتی میں مناسب تناسب کا خیال رکھا جائے۔ اپر کرم کے پولیٹیکل یا اسسٹنٹ پولیٹیکل جبکہ لوئر کرم کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ اور تحصیلدار میں برابر تناسب رکھیں۔ اسی طرح لوئر کرم میں ریڈر اور اپر کرم کے ریڈر کے تعیناتی میں برابر تناسب رکھا جائے تاکہ اس قسم کے ناخوشگوار اور تلخ حقائق سامنے نہ آئیں۔

اس طرح زیادتی سے آئندہ گریز کیا جائے بلکہ متعصب اہلکاروں کو برطرف کرکے اہل اہلکار لگائیں اور پوسٹوں کی تقسیم بھی مناسب تناسب سے کریں تو کئی مشکلیں خود بخود حل ہوجائیں گی۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری