گلگت بلتستان میں بڑھتے ہوئے روڈ حادثات کے عوامل اور ہماری ذمہ داریاں


گلگت بلتستان میں بڑھتے ہوئے روڈ حادثات کے عوامل اور ہماری ذمہ داریاں

یوں تو حادثات اور آفات، انسانی زندگی کا حصہ ہیں مگر گلگت بلتستان میں آج کل حادثات کچھ زیادہ رونما ہورہے ہیں اور یہ بڑھتے ہوے حادثات جی بی حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔

تسنیم خبررساںادارہ: گلگت بلتستان میں آئے روز کوئی نہ کوئی گاڑی ایکسیڈنٹ کی خبر اخبارات کی زینت بنی رہتی ہے۔  اور  انہی سرخیوں میں سے ایک آج کا ایکسیڈنٹ ہے جو علاقہ روندو کے یلبو گاوں کے قریب پیش آیا جس میں 25 قیمتی جانوں کے ضائع ہونے کی خبر چل رہی ہے، اور یہ حادثہ نہ تو اس روڑ پر پہلا حادثہ ہے اور نہ ہی آخری تصور کیا جاسکتا ہےھے ان حادثات کی شمارش کرکے میں بہت سارے ستم دیدہ افراد کا غم تازہ نہیں کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن یہاں جس بات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ ان حادثات کے عوامل اور اسباب ہیں اور اب تک کے حادثات کے بنیادی وجوہات کو صوبائی حکومت نے یا  تو کوشش نہیں کیا ہے اور اگر وہ وجوہات تک پہنچ بھی گئی ہے تو میڈیا پر لانے کی کوشش نہیں کی ہے۔ دونوں صورتوں میں حکومت کی   نااہلی ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہر حادثے کے  اسباب کو  حکومت میڈیا پر بیان کرتی تاکہ اس سے ایک تو عوام کا حکومت پر اعتماد بڑھ جاتا اور دوسری طرف ٹریول کمپنیوں کو بھی پتہ چلتا کہ کونسے عوامل ان حادثات میں کارفرما تھے جن سے ان کو اجتناب کرنا ہوگا؛ اگرچہ یہ اجتناب مختصر وقت کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔

حادثات کے عوامل میں سے ایک اوور ہییانائی کے برخلاف حد سے زیادہ سواریوں کو بٹھایا جاتا ہے اور  فولڈینگ سیٹ کے نام سے تو ہکایک ایسا ظلم ہورہا ہے کہ جو ناقابل بیان ہے۔ جب اس نام نہاد سیٹ پر بھی مسافر بیٹھایا جاتا ہے تو ہر سواری اپنی اپنی سیٹ پر قیدی ہوجاتا ہے۔ اور یہ خود بھی حادثات کا باعث بھی ہے اور نہیں تو، حادثات کی صورت میں زیادہ جانوں کے ضیاع کا باعث ضرور ہے۔

گاڑیوں کی خستہ حالی دوسرا عامل ہے۔ اکثر گاڑیاں عرصہ دراز سے چل رہی ہیں اور اس صعب العبور روڈ پر آخری عمر میں پہنچ جاتی ہیں جس کے نتیجے میں اکثر گاڑیاں راستے میں بار بار خراب ہوتی ہیں اور مسافر کرب و اذیت کے ساتھ اس کٹھن سفر کو طے کرتے ہیں۔

تیسرا سبب ڈرائیور کی عدم مہارت یا اس کی ڈرائیونگ پر عدم توجہ ہے۔ اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ گاڑیوں میں ایک ہی ڈرائیور ہوتا ہے جو پورے راستے میں اکیلا گاڑی چلاتا ہے جس کی وجہ سے انسانی بدن کی توانائی جواب دے بیٹھتی ہے اور تھکاوٹ کی وجہ سے وہ مزید ڈرائیونگ کرنے سے عاجز ہے۔ کتنے ایسے مسافر میری اس بات کی گواہی دینگے کہ راستے میں انہوں نے ڈرائیور کو سونے اور آرام کرنے پر مجبور کیا ہے تاکہ وہ سلامتی کے ساتھ سفر کو اختتام تک پہنچا سکیں۔ یا بعض دفعہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ ڈرائیور کے ساتھ ایک ناتجربہ کار نوجوان بیٹھا ہوتا ہے اور انسانی جانوں کو اس کے سپرد کیا جاتا ہے۔

چوتھا عامل سڑک کی خستہ حالی ہے۔ اگرچہ گلگت سکردو روڈ بہت جلد اپنے اختتامی مراحل کو پہنچ جائے گا لیکن اب تک کے اکثر ایکسیڈنٹس میں سڑک کی خستہ حالی بھی غیر موثر نہیں تھی۔ کچھ موڑ ، اترائی یا چڑھائی ایسی ہیں جو ہمیشہ سے جان لیوا تھیں  اور ہیں، لیکن کبھی کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ ایک ہی جگہ کئی ایکسیڈنٹس ہوئے ہیں لیکن کسی نے اس مشکل کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کوئی بس یا کوسٹر کا حادثہ ہوتا ہے اور کئی جانیں ضایع ہوتی ہیں تو پتہ چلتا ہے ورنہ مال بردار گاڑیوں کے بیچارے ڈرائیوروں کا تو پتہ تک نہیں چلتا ہے۔

پس ان اسباب کے پیش نظر حکومت وقت کو اور اس امر کے  ذمہ داروں کو سرجوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے اور یہ سوچنا چاہئے کہ ہم کب تک قیمتی جانوں کا ضیاع دیکھتے رہیں اور فقط تسلیت دیکر عوام کے زخموں پر نمک چھڑکاتے رہینگے۔

اگرچہ ان حادثات کے لئے ہم نے پہلے بھی ایک کالم (دشمن کے بچوں کو پڑھانے سے بہتر ہے دشمن بننے سے روکا جائے!) میں اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ جانے والے تو چلے گئے لیکن ان کی بیوہ اور یتیم بچوں پر جن کے سر سے سرپرست کا سایہ اٹھ جاتا ہے تو ان کا کیا بنے گا. اس کے لئے ہم نے تمام گاڑیوں کے انشورنس کی تجویز دی تھی جو آج کل دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہے۔

لہذا ٹریولز کمپنیوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے نیز گاڑیوں کی چیکینگ کے لئے بھی کوئی لائحہ عمل تیار کیا جائے اور اگر ہے تو اس پر سختی سے عملدرآمد کرنے کی کوشش کریں۔ اور ہر گاڑی میں کوئی ایسا رابطہ نمبر بھی رکھ دیں جس پر مسافر کال کر کے مسائل بیان کرسکیں۔

نیز عوام کو بھی شعور دینے کی ضرورت ہے کہ گاڑی میں معیار سے زیادہ مسافر سوار کرنے یا گاڑی غیر معیاری نظر آنے پر اپنے حق کا اظہار کریں اور جب تمام مسافر یک زبان ہوکر صدائے احتجاج بلند کریں گے اور مسافر گاڑی میں سوار نہیں ہونگے تو ایجنسیز خود بخود سدھر جائیں گی اور آیندہ سے حق تلفی نہیں کریں گی۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم سب بھی برابر کے قصوروار ہیں کبھی کسی ڈرائیور کی ناانصافی پر صدائے احتجاج بلند نہیں کی ہے۔ کبھی کسی ڈرائیور کے خلاف یا ٹریول ایجنسی کے خلاف کمپلین نہیں کی ہے۔ اور اب حالت یہ ہے کہ سب کچھ کو اللہ پر چھوڑا ہوا ہے کہ اگر ایکسیڈنٹ میں کوئی مرتا ہے تو کہا جاتا ہے اس کی موت وہیں واقع ہونی تھی۔

ایکبار پھر جی بی حکومت سے درخواست ہے ان سانحات اور حادثات پر سکوت کا روزہ رکھنے کے بجائے سختی سے قوانین پر عملدرآمد کریں تاکہ مستقبل میں انسانوں کی جانوں کے لئے تحفظ فراہم ہوسکے۔

تحریر: مشتاق حسین حکیمی

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری