پاکستانی نژاد برطانوی ڈاکٹر حبیب زیدی انتقال کرگئے


پاکستانی نژاد برطانوی ڈاکٹر حبیب زیدی انتقال کرگئے

کورونا وائرس سے متاثر نامور پاکستانی نژاد ڈاکٹر حبیب زیدی سائوتھ اینڈ ہپستال کے انٹینسیو کیئر میں 24 گھنٹے گزارنے کے بعد زندگی کی بازی ہار گئے۔

تسنیم خبررساں ادارے کے مطابق، وہ کورونا وائرس کا شکار ہونے والے پہلے برطانوی ڈاکٹر ہیں۔ ان کی بیٹی ڈاکٹر سارہ زیدی کے مطابق انہیں بطور ڈاکٹر اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران مہلک کورونا وائرس لگا تھا اور اس وائرس نے ان کی زندگی لے لی، جو ان کی قربانی کی عکاس ہے اور اس سے ان کی خدمت کا پیشہ ورانہ رویہ نمایاں ہوتا ہے۔

 ان کا حتمی کیس کے طور پر علاج کیا گیا تھا کیونکہ ان میں کورونا وائرس ہونے کا کلینیکل شبہ کم تھا اور ٹیسٹ رزلٹ اکیڈمک تھا۔ 76 سالہ ڈاکٹر حبیب زیدی ایک ہفتے سے آئسولیشن میں تھے اور وہ مریضوں کو نہیں دیکھ رہے تھے، کیونکہ وائرس کی علامت ظاہر ہونے کے بعد انہیں کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کا شبہ ہو گیاتھا۔

 اگر ٹیسٹ کے رزلٹ مثبت آئے تو ڈاکٹر زیدی مہلک کوویڈ 19 کا شکار ہونے والے پہلے برطانوی ڈاکٹر ہوں گے۔ عوامی اجتماع پر پابندی ہونے کی وجہ سے فیملی اور فرینڈز ڈاکٹر زیدی کی مناسب تدفین نہیں کر سکے۔

 ڈاکٹر سارہ نے کہا کہ ہم معمول کے مطابق سوگ نہیں منا سکے اور نہ معمول کے مطابق تدفین کر سکے۔ ان کی موت نے ہماری زندگی میں خلا پیدا کر دیا ہے۔

ان کی موت سے ہونے والے نقصان کو کمیونٹی میں بھی محسوس کیا جائے گا جن کیلئے انہوں نے پوری زندگی مختص کر دی تھی ہم اب ہر ایک کی حفاظت کیلئے دعا گو ہیں۔ ڈاکٹر زیدی نے بیوہ ڈاکٹر طلعت زیدی اور چار بچوں کو سوگوار چھوڑا ہے۔

 تمام بچے اپنے والد کی طرح میڈیکل کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر زیدی کو این ایج ایس ساوتھ اینڈ ہسپتال کلینیکل کمیشنگ گروپ کی جانب سے ایکسیلینس ایوارڈ بھی ملا تھا۔ وہ کمیونٹی کیلئے انتہائی مہربان اور کیئر کرنے والے انسان تھے۔

 سوشل میڈیا پر ان کے ایک مریض نے کہا کہ وہ ایسے ایک مہربان اور کیئر کرنے والے جینٹل مین ڈاکٹر اور دوست تھے جو مشکل ہی سے ملتا ہے۔

سائوتھ اینڈ کونسل کے لیڈر ایان گلبرٹ نے کہا کہ ہمیں ڈاکٹر زیدی کے انتقال کی موت کا سن کر شدید افسوس ہوا ہے اور ان کی فیملی کمیونٹی کے اندر جانی پہچانی اور پیار کرنے والی ہے۔ ڈاکٹر زیدی کی بیوہ بھی کورونا وائرس کی وجہ سے احتیاطی طور پر باقی فیملی سے دور قرنطینہ میں چلی گئی ہیں۔

ڈاکٹر زیدی کی فیملی نے کہا کہ ایک جی پی کی حیثیت سے یہ جذبہ ان کی تقریباً پانچ دہائیوں کی خدمت سے سرشار تاریخ کو مختصر طور پر بیان کرتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف اپنے مریضوں کی خدمت کی بلکہ انتھک کام کیا اور انہوں نے کبھی بھی جدت طرازی، مستقل نشوونما اور معیار کی بہتری کیلئےکام کرنا نہیں چھوڑا اور ان کی یہ کوشش آخری سانس تک جاری رہی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں خراج عقیدت کے بہت سے پیغامات ملے ہیں جو انتہائی مغلوب چھونے اور تسلی دینے والے ہیں۔ ڈاکٹر زیدی کے انتقال پر ان کے متعدد مریضوں نے اظہار افسوس کیلئے سوشل میڈیا کا استعمال کیا۔

ایرس نے ڈاکٹر زیدی کو پہلی بار اس وقت دیکھا تھا جب وہ تقریباً 50 سال قبل پاکستان سے برطانیہ آئے تھے۔ وہ یہ کہتےہوئے رو پڑیں کہ مجھے یقین نہیں آتا کہ وہ چلا گیا ہے۔

وہ بہت ہی پیارا اور ہر ایک پر مہربان تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب دو ہفتے قبل آخری بار میں نے اسے دیکھا تو انہوں نے مجھے کہا کہ مضبوط رہو اور میں ہمیشہ اس کی پیشانی کو چومتی تھی اور میں نے کہا تھا کہ پلیز اپنی کیئر کرو۔

مجھے یاد ہے کہ سرجری میں آخری بار یہ بات ہوئی تھی۔ ان کی موت انکی بیوہ اور بچوں کیلئے انتہائی دکھ اور افسوس کا واقعہ ہے۔ یہ شاندار فیملی ہے۔ این ایچ ایس ورکرز بشمول ڈاکٹرز کو مریضوں کا انتہائی قریب سے علاج کرنے کی وجہ سے کورونا وائرس لاحق ہونے کے خطرات بہت زیادہ ہیں۔

بعض نیوز رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ این ایچ ایس نے دو میڈیکل ورکرز کو شیئر کرنے کیلئے ایک ماسک دیا ہے، یوکے میں میڈیکل ڈاکٹرز کیلئے آلات کی کمی اس صورت حال میں بڑا دھچکہ ہے کہ بزنسز ارننگز اینڈ ویجرز کیلئے اربوں پونڈ کی رقم مختص کر دی گئی ہے لیکن این ایچ ایس ورکرز کیلئے مناسب گیئرز کو یقینی بنانے کیلئے کچھ نہیں کیا گیا۔

گزشتہ رات 8 بجے پورے برطانیہ نے این ایچ ایس سٹاف سے اظہار یک جہتی کیلئے تالیاں بجائی تھیں برطانیہ میں مہلک کورونا وائرس سے 578 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اس وقت تک 11658 افراد کے کوویڈ19 ٹیسٹ مثبت ثابت ہو چکے ہیں

 

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری