بیروت دھماکے ۔ ۔ حادثہ یا اسرائیلی حملہ!


بیروت دھماکے ۔ ۔ حادثہ یا اسرائیلی حملہ!

چار اگست منگل کی شام تقریبا چھ بجے لبنانی وقت کے مطابق بیروت کی بندر گاہ پر یکے بعد دیگر دو بڑے دھماکے ہوئے جس کے باعث نہ صرف پوری کی پوری بندر گاہ تباہ ہوئی

تسنیم نیوز: چار اگست منگل کی شام تقریبا چھ بجے لبنانی وقت کے مطابق بیروت کی بندر گاہ پر یکے بعد دیگر دو بڑے دھماکے ہوئے جس کے باعث نہ صرف پوری کی پوری بندر گاہ تباہ ہوئی بلکہ ان دھماکوں کی شدت اس قدر خطر ناک اور تباہ کن تھی کی مقامی ذرائع کے مطابق چالیس کلو میٹر کے دائرے میں موجود عمارتوں کی کھڑکیاں اور شیشے ٹوٹ گئے اور خطر ناک زلزلہ کی لہر پیدا ہوئی ۔

 دھماکوں کے چند لمحوں بعد بیروت کے گورنرنے ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان دھماکوں سے بیروت کو ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی یاد دلا دی ہے۔

 سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہوئی ویڈیوز کو دیکھ کر با آسانی یہ کہا جا سکتا تھا کہ یہ دھماکے نیم ایٹمی دھماکے ہیں۔

بیروت میں منگل کو ہونے والے دھماکوں میں اب تک سرکاری ذرائع کے مطابق ایک سو پینتیس افراد شہید ہوئے ہیں جبکہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

 درجنوں افراد لا پتہ ہیں جن کی تلاش جاری ہے، اسی طرح تین لاکھ کے قریب افراد بے گھر ہوئے ہیں جن کے گھر تباہ ہو چکے ہیں۔

 ان تمام باتوں میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ بیروت شہر کی واحد بندر گاہ جو لبنان کی معاشی ضروریات اور غذائی اجناس کی درآمد کے لئے راستہ ہے مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔

 اطلاعات کے مطابق بندر گاہ پر ہونے والے ہولناک دھماکوں کی تباہی کے باعث جہاں تیل کا ذخیرہ تباہ ہوا ہے وہاں ساتھ ساتھ ملک کی ضروریات پوری کرنے کے لئے درآمد کی گئی غذائی اجناس بھی تباہ ہو چکی ہیں ۔

لبنان حالیہ دنوں جہاں اس خطر ناک مصیبت سے گزر رہا ہے وہاں ساتھ ساتھ لبنان کا شمار ایسے ممالک میں بھی ہوتا ہے کہ جن پر امریکہ نے سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور ان پابندیوں کی وجہ سے لبنان کی معیشت بالکل تباہی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

 امریکی صدر کی جانب سے لبنانی بینکوں اور معاشی اداروں پر پابندیوں کا سلسلہ جاری ہے اور ابھی تازہ ترین صورتحال میں امریکی صدر نے انتہائی بے شرمی کے ساتھ کہا ہے کہ امریکہ لبنان کی مدد کے لئے تیار ہے لیکن آج دو دن گزر جانے کے بعد جہاں امریکہ کی طرف سے کوئی امداد نہیں بھیجی گئی وہاں ابھی تک کسی بھی قسم کی پابندی میں نرمی یا پابندی کے خاتمہ کا اعلان بھی نہیں کیا گیا ہے ۔ پوری دنیا نے بم دھماکوں کے بعد پید ا ہونے والی صورتحال میں لبنان کے عوام کی مدد کرنے کو اولین ترجیح قرار دیا ہے لیکن امریکی پابندیاں ان امدادی سرگرمیوں کی راہ میں بھی رکاوٹ ہیں۔

ایران، قطر، ترکی سمیت عرا ق نے لبنان کی عملی مدد شروع کر دی ہے، ایران کے تین کارگو جہاز حملہ کے بعد بدھ کی درمیان شب کو بیروت ہوائی اڈے پر پہنچ چکے تھے۔

عراق نے امریکہ کے دباءو کو مسترد کرتے ہوئے اگلے ہی دن سے لبنان کے لئے تیل کی سپلائی پہنچانے کی یقین دہانی کروائی تھی، اسی طرح قطر اور ترکی نے موبائل اسپتالوں کا قیام کیا ہے ۔

 شام کی حکومت جو گذشتہ دس سال سے امریکہ اور عرب دنیا کی پابندیوں اور سازشوں کا مقابلہ کر رہی ہے اس مشکل وقت میں لبنان کے لئے زمینی او ر فضائی تمام سرحدوں کھول دیا گیا ہے اور زخمیوں کو علاج معالجہ کے لئے دمشق میں منتقل کیا گیا ہے ۔ فرانس کے صدر مائیکرون بھی جمعرات کو لبنان پہنچے ہیں اور امداد کا اعلان کیا ہے ۔

اس تمام صورتحال کے تناظر میں لبنان حکومت نے ملک میں پندرہ روز کی ایمرجنسی نافذ کر رکھی ہے اور پورے ملک میں سوگ کی فضاء ہے ۔ آئیے اب سیاسی طور پر دنیا کے رویہ اور خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل کے رویہ کو بیان کرتے ہیں کہ لبنان میں ٹوٹنے والی اس قیامت پر امریکی صدر اور غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے حکمران کیا کہتے ہیں۔

 

لبنان کی بندر گاہ پر ہونےو الے ہولناک دھماکوں کو ابتدائی طور پر سرکاری موقف میں بتایا گیا ہے کہ بندر گاہ پر موجود دوہزار سات سو ٹن ناءٹریٹ سوڈیم آتش گیر مادہ موجود تھا جس کے دھماکہ کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔

 دوسری طرف امریکی صدر نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ حملہ ہو سکتا ہے، لہذا لبنانی حکومت کے موقف کی تردید کی گئی ہے ۔

عالمی سطح پر ماہرین سیاسیات کی رائے میں بھی اسی طرح کا تاثر موجود ہے اور کچھ ماہرین کی رائے ہے کہ یہ ایک حملہ ہو سکتا ہے اور اس حملہ میں اسرائیل کا ملوث ہونا قوی امکان ہے۔

اس خیال کے مالک ماہرین کاکہنا ہے کہ اسرائیل ماضی میں لبنان کی بندرگاہ اور فضائی اڈے کو نشانہ بنانے کی دھمکیاں دیتا رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ اسرائیل ان حملوں کے پیچے ملوث ہو ۔

کچھ اور ماہرین سیاسیات نے اس خوفناک دھماکوں کو حادثہ ہی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی وجوہات اور غفلت برتنے والے عناصر کی نشاندہی کی جائے اور ان کے خلاف قرار واقعی ایکشن لیا جائے ۔

اطلاعات کےمطابق اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے کہ بڑے پیمانے پر دو ہزار سات سو ٹن ناءٹریٹ سوڈیم مواد بندر گاہ کی ذخیرہ گاہ میں سنہ2014ء سے موجود تھا جس کے بارے میں غفلت سے کام لیا گیا ہے، اسی طرح منگل چار اگست کو ہی اسرائیل جنگی طیاروں نے لبنانی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شام میں داخل ہوئے اور شام میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف لڑنے والی افواج کے خلاف بمباری میں حصہ لیا لہذا ایک امکان یہ پایا جاتا ہے کہ اس کاروائی میں بھی اسرائیلی ہاتھ کارفرما ہو۔

 سیاسی ماہرین کی رائے کے مطابق یہ امکان قوی ہے کہ اسرائیل نے بندر گاہ پر حملہ کر کے حالیہ دنوں امریکہ کی طرف سے معاشی شکنجہ میں جکڑے بیروت کو مزید کڑے امتحان میں مبتلا کر دیا ہے۔

دوسری جانب اسرائیل نے لبنان کی بندر گاہ پر کسی بھی حملہ سے انکار کرتے ہوئے خوفزدگی رویہ کا مظاہرہ کیا ہے البتہ سوشل میڈیا پر اسرائی کے کچھ اراکین کنیسٹ نے خوشی کا اظہار کیا ہے اور تباہی پر مسرت کا اظہار کیا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ لبنان اس حادثہ کے بعد مشکلات کا شکار ہو چکا ہے، بندر گاہ مکمل تباہ ہو چکی ہے، ایران اور دیگر خطے کے ممالک لبنان کی مدد کے لئے میدان میں اتر آئے ہیں ۔ لبنان کی مدد ایسے ممالک کررہے ہیں جو خود پہلے ہی امریکی پابندیوں کا شکار ہیں لیکن جو ممالک امریکہ کے اتحادی ہیں ان کی طرف سے تا حال لبنان کی مدد کے مناظر دیکھنے میں نہیں آئے ہیں ۔

لبنان اپنی ایک مکمل تاریخ رکھتا ہے، اس لبنان نے بہت سے کٹھن حالات کا مقابلہ کیا ہے، اسی لبنان نے سنہ 2000ء میں اسرائیل کولبنان سے فرار کرنے پر مجبور کیا اور مکمل آزادی حاصل کی ۔

یہ لبنان ہے کہ جس نے امریکہ اور اسرائیل کے تمام ناپاک منصوبوں کو آج تک ناکام بنایا ہے اور سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق لبنان سے یہی امید کی جا رہی ہے کہ لبنان ایک مرتبہ پھر اس خطر ناک صورتحال سے نکل کر ابھرے گا اور یہ لبنان اب پہلے سے زیادہ مضبوط اور طاقت ور ثابت ہو گا

تحریر: صابر ابو مریم

سیکرٹری جنرل فلسطین فاءونڈیشن پاکستان

پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

۔

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری