ماہِ محرّم الحرام، حزن و ملال کا مہینہ


ماہِ محرّم الحرام، حزن و ملال کا مہینہ

ہر سال محرم الحرام کی آمد ہمیں مقصدِ حسینیؑ کی یاد دِلاتی ہے کہ کبھی بھی اور کہیں بھی ظلم کے خلاف خاموشی اختیار نہ کریں اور ہر ایک اپنی توان و طاقت اور استطاعت کے مطابق ظلم کے خلاف قیام کرے۔

ہر سال ماہِ محرم الحرم کا چاند اپنے ساتھ غم و اندوہ، مصائب و آلام، گریہ و اشک زاری اور حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کو اُن کے لختِ جگر، میوۂ دل، نورِ عین حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کا پُرسہ دینے کے لیے فرشِ عزاء بچھانے کا پیغام لے کر طلوع کرتا ہے؛ لیکن حقیقت میں ہر سال محرم الحرام کی آمد ہمیں مقصدِ حسینیؑ کی یاد دِلاتی ہے کہ کبھی بھی اور کہیں بھی ظلم کے خلاف خاموشی اختیار نہ کریں اور ہر ایک اپنی توان و طاقت اور استطاعت کے مطابق ظلم کے خلاف قیام کرے۔

مجالسِ عزاء و پرسہ داری، جلوس ہائے عزاداری و ماتم داری، نذر و نیاز اور پانی کی سبیلیں یہ سب در واقع اسی مقصد کو عام کرنے کے لیے ہیں کہ امام عالی مقامؑ نے دشتِ نینوا میں تین دن کی بھوک و پیاس کے ساتھ اپنے اعزاء و اقرباء اور انصار کے ہمراہ ظالم و جابر اور مئےخوار حاکمِ وقت کے خلاف قیام کیا اور یہ پیغام دیا کہ ظلم کے خلاف خاموش رہنا، درحقیقت ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔

باوجود یہ کہ واقعۂ عاشورا کو رونما ہوئے 1380 سال کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن ہماری اسلامی تاریخ میں اور شاید پوری بشریت کی تاریخ میں، یہ واقعہ ابھی تک باعظمت ترین اور پُرمعنی ترین واقعات میں سے ہے کہ جو جانثاری، فداکاری اور خون کی تحریر کے ساتھ رونما ہوا ہے۔

واقعۂ عاشورا کے بعد ہماری پوری تاریخ میں، شاید ہی کوئی ایسی تحریک، قیام یا خونین واقعہ تلاش کیا جا سکے جو انسانی اہداف و مقاصد اور آرمانوں کی تکمیل کے لیے برپا ہوا ہو اور اُس نے واقعۂ عاشورا کو اپنے لیے آئیڈیل اور نمونۂ عمل قرار نہ دیا ہو۔

دوسرے تمام حوادث و واقعات کے برخلاف جو اپنے رونما ہوتے وقت ایک طلاطم برپا کرتے ہیں، لیکن جتنا زمانہ گزرتا جاتا ہے یہ طلاطم اور جوش و جذبہ ضعیف اور ماند پڑتا چلا جاتا ہے؛ جبکہ واقعۂ عاشورا کو رونما ہوئے اب تک جتنا زمانہ بھی گزرا ہے، ہر سال اور ہر زمانے میں اس کی شدّت و حِدّت میں اضافہ ہی ہوا ہے اور سب تک اس کے اثرات پہنچے ہیں۔
واقعۂ کربلا میں ہمیں جاں نثاری و فداکاری، ایثار و قربانی، وفاداری و وفاشعاری، اطاعت و فرمانبرداری اور شہادت طلبی کے ایسے بےمثال نمونے ملتے ہیں جو کسی اور واقعے میں نہیں پائے جاتے۔

کربلا میں شش ماہِ شیرخوار سے لے کر اسّی سال کے بوڑھے افراد تک موجود ہیں، جو جوش و جذبے اور مروّت و جوانمردی میں کسی سے کم نظر نہیں آتے۔ جیسے اصحاب حضرت امام حسین علیہ السلام کو ملے، نہ اِس سے پہلے کسی کو ملے اور نہ رہتی دنیا تک کسی کو ملیں گے۔
امام عالی مقامؑ کے باوفا اصحاب کے نقشِ پاء میں دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ہر قسم کا بےمثال اور بےنظیر نمونہ موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ کربلا قیامت تک انسانوں کے لیے ایک ناقابلِ انکار دائمی درسگاہ ہے جو مسلسل حرّیت و آزادی اور ایثار و فداکاری کا پیغام دے رہی ہے۔


بقولِ شاعر شعلہ بیاں مرحوم جوشؔ ملیح آبادی:
کیا صرف مسلماں کے پیارے ہیں حسینؑ
چرخِ نوعِ بشر کے تارے ہیں حسینؑ
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ

اگرچہ اہلِ عزاء ہر سال محرم الحرام کے آغاز سے قبل ہی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی لختِ جگر اور دخترِ نیک اختر حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام کو اُن کے میوۂ دل اور نورِ عین حضرت اباعبداللہ الحسین علیہ السلام اور دیگر اعزاء، اقرباء اور انصار کا پرسہ دینے کے لیے فرشِ عزاء بچھانے اور مجالسِ عزاء منعقد کرنے کا اہتمام کرتے ہیں اور محرم اور صفر کے اِن دو مہینوں کو عزاداری و ماتم داری، گریہ و زاری اور مجالس عزاء منعقد کرنے میں گزارتے ہیں؛ لیکن شہیدِ انسانیت حضرت امام حسین علیہ السلام کی لازوال قربانی کو صرف محرم و صفر کے ایام کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی سید الشہداءؑ کی قربانی اِن اہداف کے لیے تھی، بلکہ آپؑ کی شہادت کا اصل مقصد انسانوں کو بیدار کرنا تھا تاکہ ان میں حرّیت پسندی اور آزاد منشی کو فروغ دیتے ہوئے ایک ایسے اسلامی معاشرے کا تصوّر پیش کریں جس میں رواداری و برادری اور عفو و درگزر کے ساتھ ساتھ، ظلم و ستم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا جذبہ بھی موجود ہو اور وہ ایثار و قربانی کے جذبے سے بھی سرشار ہوں اور ایسے انسانوں کے لیے کربلا ہر لحاظ سے تاقیامِ قیامت ایک آئیڈیل درسگاہ ہے۔

اسی درسگاہ کی حقیقت کی طرف امام خمینی قدّس سرّہ اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یہ محرم اور صفر ہی ہیں جنہوں نے اسلام کو زندہ رکھا ہوا ہے، سید الشہداء علیہ السلام کی لازوال قربانی نے اسلام کو زندہ رکھا ہوا ہے۔‘‘(1)
لہٰذا ہر سال ماہِ محرم الحرام کی آمد تمام انسانوں بالخصوص حسینیوں کے اعتقادی، فکری اور ذہنی دریچوں کو کھولنے اور تجدیدِ عہد کے لیے ایک بہترین فرصت ہے، جسے ہرگز ہاتھ سے نہیں دینا چاہیے۔

تحریر: سید عقیل حیدر زیدی

حوالہ:
1۔ صحیفۂ نور، حضرت امام خمینی قدّس سرّہ، ج15، ص204

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری